وجاہت مسعود کا ناقابل اشاعت کالم


بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات میں ہندو قوم پرستی کی علمبردار بھارتیہ جنتا پارٹی نے 303 نشستیں جیت لیں۔ بھارتی دستور کے مطابق حزب اختلاف کا درجہ پانے کے لئے 55 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 52 سیٹیں جیتنے والی کانگریس سرکاری طور پر حزب اختلاف کا درجہ بھی حاصل نہ کر سکی۔ زعفرانی لبادوں میں ملبوس، ماتھے پر تلک سجائے، کنول کی مذہبی علامت پر ووٹ کی مہر لگانے والے بھارتی ووٹر خوش ہیں، راہل گاندھی نے انتخابی نتیجہ تسلیم کر لیا، ہمارے وزیر اعظم نے نریندر مودی کو مبارک باد کا پیغام بھیج دیا تو ہمیں شہر کے اندیشے میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت کے مردے بھارت میں گڑیں گے۔

تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم بھارت کے سیاسی منظر اور سماجی خدوخال سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ بھارت ہمارا مشرقی ہمسایہ ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان اور بھارت نے برطانوی ہندوستان کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم نے دونوں ملکوں کی تعمیراتی ساخت کی بنیاد رکھی۔ قائد اعظم نے دونوں ملکوں میں امریکا اور کینیڈا جیسے تعلقات کا خواب دیکھا تھا لیکن آزادی کی سات دہائیوں میں ہم مسلسل دست و گریباں رہے ہیں۔ پاکستان 97 فیصد مسلم اکثریت کے باوجود ریاست اور مذہب میں تعلق کا سوال حل نہیں کر سکا۔ ادھر معیشت کی تیز رفتار ترقی کے باوجود بھارتی سیاست پر اکثریتی فرقے کی چھاپ گہری ہو رہی ہے۔ 23 مئی کی شام بھارت کی سڑکوں پر ڈھول بجاتے بی جے پی کے کارکنوں کو دیکھ کر بار بار خیال آتا رہا کہ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ کوئی بھارتی مسلمان بی جے پی کے جشن فتح میں کیسے شریک ہو گا؟ کیا ہندوتوا کے پرجوش نعروں کو سنتے ہوئے لکھنو کے کسی پاجامہ پوش مسلمان پر وہی بے بسی طاری نہیں ہو گی جو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اس ہندو رکن نے محسوس کی ہو گی جسے پچھلے مہینے کم سنی کی شادی کے بارے میں قانون سازی کی تجویز دینے پر ایک باریش وزیر نے غیر مسلم ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ بھارت کے انتخابات جمہوریت کے نام پر جمہوری اصولوں کی نفی کا پیغام لائے ہیں۔ ٹھہریے، میں اپنے داغ ہائے سینہ کی خبر لے لوں۔

پاکستان میں پہلے عام انتخابات آزادی کے 23 برس بعد دسمبر 1970ءمیں منعقد ہوئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ 1970 کے انتخابات شفاف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شفاف الیکشن وہ شجر ممنوعہ ہے جس کا میوہ چکھنے کی ہمیں کبھی اجازت نہیں ملی۔ مارچ 1969 میں یحییٰ خان نے عملی طور پر ایوب خان سے اقتدار چھینا تو کسی بھی غیرجمہوری حکمران کی طرح اس کا بنیادی مقصد اپنے اقتدار کی ممکنہ حد تک طوالت تھا۔ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ نہ ماننے کی پاداش میں پاکستان دولخت ہوا۔ یحییٰ خان اپنی صدارت کی ضمانت مانگتا تھا۔ اکثریتی جماعت نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو اس نے بندوق کی نالی سے اپنا راستہ نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان ووٹ کی پرچی سے نہیں، بندوق کی نالی سے دو ٹکڑے ہوا۔

یہ تذکرہ تو اس کہانی کی تمہید میں چلا آیا جس کا خاکہ جنرل شیر علی خان پٹودی نے تیار کیا تھا۔ شیر علی خان گہرے مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور نہتے عوام پر مسلح افواج کی بالادستی کے نظریہ دان تھے۔ انہوں نے لیاقت علی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی جنرل فرینک میسروی کے حکم پر لیفٹنٹ کرنل (تب) یحییٰ خان کی معاونت سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں پاکستان کی فوج کو جغرافیائی سرحدوں کے علاوہ نظریاتی تشخص کا محافظ بھی قرار دیا۔ بیس برس بعد یحییٰ خان حکمران بنے تو شیر علی پٹودی کے نظریات سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ انہیں ملائیشیا کی سفارت سے واپس بلا کر اطلاعات کی وزارت سونپی گئی تاکہ آئندہ انتخابات میں پاکستان کی نظریاتی انجنیئرنگ کی جائے۔

شیر علی پٹودی نے ایک سہ رخا خاکہ بنایا۔ میجر جنرل غلام عمر کی سربراہی میں نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی گئی جس کا کام مذہبی جماعتوں کی دامے درمے سخنے مدد کرنا تھا۔ جنرل غلام عمر اسد عمر کے والد تھے اور انہوں نے بھٹو حکومت کے دوران اس رقم سے باقی بچے ہوئے سات لاکھ روپے حکومت کو واپس کئے تھے جو 70 کے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں میں بانٹے گئے تھے۔ دوسری طرف آغا محمد علی اور این اے رضوی کی قیادت میں خفیہ ادارے عوامی تائید کی حامل جماعتوں کے خلاف سرگرم تھے۔ تیسری طرف خود شیر علی پٹودی کی وزارت اطلاعات تھی جس نے پاکستان کے لوگوں میں ایک لکیر کھینچ دی۔ ایک گروہ اسلام پسند کہلایا اور دوسرے کو سیکولر سرخے قرار دیا گیا۔ پاکستان قومی اتحاد، ضیا آمریت اور آئی جے آئی سے ہوتی ہوئی یہ لکیر آج تک موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ناپسندیدہ گروہوں کو لبرل غدار کہا جاتا ہے۔

یہ پس منظر بیان کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ بھارت میں بی جے پی کی کامیابی پر پاکستان میں کچھ حلقے پھولے نہیں سما رہے۔ انہیں گمان ہے کہ بھارت کی سیکولر سیاست کی ناکامی سے ان کی نظریاتی اساس کا اثبات ہوتا ہے۔ درس خودی دینے والوں کو بھول گئی اقبال کی یاد…. کشمیر کے مسلمانوں کے لئے دفتر سیاہ کرنے والوں کو خیال نہیں آ رہا کہ بھارت میں زعفرانی سیاست کی جیت سے بھارتی مسلمانوں کی دستار کھل کے گلے میں آ پڑی ہے۔ جموں کشمیر میں بھارت کی فوج سات لاکھ ہے مگر بھارت کے مسلمانوں پر 90 کروڑ ہندو آبادی کا اکثریتی استبداد مسلط ہو گیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مخالف سوچ بھارت میں جمہوری رواداری کی شکست سے توانائی کشید کرنا چاہتی ہے۔ بنیادی قضیہ یہ ہے کہ انسانیت کا نصب العین، مساوات، رواداری اور معاشی ترقی ہے یا انسانوں میں مذہب، ذات پات اور اکثریتی شناخت کے بل پر دیواریں اٹھانا؟

جمہوریت کا بنیادی اصول ووٹوں کی گنتی نہیں، بلکہ فیصلہ سازی اور اختیار میں تمام شہریوں کی بلا امتیاز شرکت ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ذات پات کی قائل ہے، ہندو مت کو دوسرے عقیدوں سے برتر سمجھتی ہے اور طاقت کے ذریعے معاملات طے کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ نریندر مودی معیشت میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ بے روز گاری، صنعتی پیداوار، زرعی آمدنی کے اشاریے خراب ہوئے ہیں لیکن بھارت چھپن انچ کی چھاتی کے سحر میں گرفتار ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں ایک ایسی دنیا دیکھ رہے ہیں جہاں امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت میں نریندر مودی، روس میں ولادیمیر پوٹن اور ترکی میں طیب اردوان برسراقتدار ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس کیا راستہ بچا ہے؟ ہمارے پاس انسانیت کا مشترکہ ورثہ یعنی جمہوریت کا امکان موجود ہے۔ کیا ہم پاکستان میں جمہوری مساوات، مذہبی رواداری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے پیداواری معیشت کا وہ نمونہ تخلیق کر سکتے ہیں جسے دنیا میں اسی طرح مثال بنا کر پیش کیا جا سکے جیسے چند ماہ قبل نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا نام پاکستان میں گونج رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).