گلے ملناگلے پڑ سکتا ہے


چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے ”کالمی انٹرویو“ کے بعد جو گردوغبار اٹھا تھا اس کی دھول ابھی بیٹھنے نہیں پائی تھی کہ ان کے خلاف ایک آڈیو ٹیپ اور ویڈیو ٹیپ منظر عام پر آگئی اور اب ”کالمی انٹرویو“ اور متنازعہ ویڈیو اور آڈیو نے ملک بھر میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کا تعلق جس خاتون سے جوڑا جارہا ہے اس کا شوہر کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے اس خاتون نے بڑی مہارت سے چیئرمین نیب کو اپنے جال میں پھنسایا اور پھر یہ ویڈیو اور آڈیو ٹیپ لے کر وہ ایک ایسے ٹی وی چینل میں پہنچی جس کا مالک طاہر اے خان وزیراعظم کا معاون خصوصی تھا۔

اس سکینڈل کے پیچھے دو ہی کردار نظر آرہے تھے ان میں سے ایک حکومت کے معاون خصوصی کا تھا جبکہ دوسرا ممکنہ طور پر میاں نواز شریف کا ہوسکتا تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) ایسے کاموں کی شہرت رکھتی ہے اور اپنے مخالفین پر عورتوں کے ذریعے الزام تراشی ان کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ رہا ہے لیکن اس معاملے کی طرف سوچوں کا رخ اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ جس ٹی وی چینل کا استعمال کیا گیا اس کا مالک ہر وقت وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر یہ دعوے کرتا دیکھا گیا کہ حکومت اہم ترین امور میں اس کے مشوروں کی محتاج ہے۔

یہ ممکن نہیں ہے کہ نیوز ون کی انتظامیہ نے شکاری خاتون کی فراہم کی گئی ٹیپس طاہر اے خان کو بتائے بغیر چلا دی ہوں اسی وجہ سے اس سوچ کو پختگی حاصل ہوئی کہ چیئرمین نیب کو دباؤ میں لانے کے لئے یہ تیر وزیراعظم سیکرٹریٹ سے نکلا ہے اور جہاں تک سرکاری دباؤ کا معاملہ ہے تو چیئرمین نیب اپنے کالمی انٹرویو میں یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ مجھ پر ہر حکومت کا بھی دباؤ ہے کہ ان کے خلاف ریفرنسز ختم کردیئے جائیں اور یہ کہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے خلاف شواہد اکٹھے کرلئے گئے ہیں اور وہ کسی بھی وقت جیل جاسکتے ہیں۔

لہذا عین ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بتائے بغیر کسی وزیر یا مشیر نے معاون خصوصی کو یہ ”خصوصی سکینڈل“ چلانے پر آمادہ کیا اور پھر فراڈ اور لوٹ مار کی کئی وارداتوں میں گرفتار فاروق کی بیوی نے چیئرمین نیب کی بنائی گئی ویڈیوز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرلیا۔ اگر اس سکینڈل کا انکشاف نیوز ون کی بجائے کسی اور ٹی وی چینل پر ہوتا تو باقی ٹی وی چینل یہ تاثر مضبوط کردیتے کہ کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھے ہوئے میاں نواز شریف نے خاتون کے خاوند فاروق کو یہ ڈرامہ رچانے پر آمادہ کیا مگر شومئی قسمت کہ اس بار میاں نواز شریف بال بال اس سکینڈل سے بچ نکلے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جس اہم ترین عہدے پر کام کررہے ہیں انہیں بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ ایک ملزم کی بیوی پر دل پھینک کر کہیں وہ خود ہی ملزم نہ بن جائیں۔ گلے ملناگلے پڑسکتاہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال نے چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نیب میں کافی تعداد میں خواتین کو بھرتی کیا ہے اور ان کے ا س اقدام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے مگر حالیہ سکینڈل کے بعد جسٹس جاوید اقبال کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ جب بھی کسی خاتون کو کمرے میں بلائیں تو کسی تیسرے بندے کو بھی بلالیا کریں تاکہ کسی کو الزام لگانے کی جرات ہی نہ ہو جسٹس جاوید اقبال نے بطور چیئرمین نیب بہتر کارکردگی دکھائی ہے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بنائے گئے کمیشن میں بھی ان کی کارکردگی قابل تعریف ہے لیکن ایک ملزم خاتون نے ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔

جسٹس جاوید اقبال نے خاتون کے ساتھ جس طرح ”سرتاپا“ عقیدت کا اظہار کیا ہے اس سے احتساب کا عمل سرتاپا بدنام ہوکر رہ گیا ہے اورگلے ملنے کے لئے بھی انہیں چند روز انتظار کرنا چاہیے تھا کیونکہ عید الفطر میں اب چند دن باقی ہیں اس طرح گلے ملنے سے رسم دنیا بھی ادا ہو جاتی اور سب کچھ موقع اور دستور کے مطابق سمجھا جاتا اب تو ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے روزہ ہی توڑ لیا ہو اس عمل سے انہوں نے رحمتوں کے مہینے میں اپنی دنیا و آخرت داؤ پر لگادی ہے۔

جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ جوڑے گئے اس سکینڈل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں مافیاز کتنے طاقتور ہیں اور اہم ترین اداروں پر بیٹھے ہوئے لوگ کتنے مجبور ہیں بے شک وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں یا دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہیں لیکن ہر با اختیار آدمی کو مافیاز نے کسی نہ کسی طرح بے بس اور مجبور کررکھا ہے۔

اسلام آباد کے سرکاری اداروں میں کئی افسران نے اپنی ماتحت خواتین افسران کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور پارلیمنٹ کا ایک کیس بھی سامنے آیا ہے لیکن فوری انصاف کی فراہمی کا نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال والی ویڈیو ٹیپ دیکھنے اور سننے کے بعد یہ اندازہ کرنا بہت مشکل ہے کہ اس میں ہراساں کون کررہا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کے بولے گئے رومانوی ڈائیلاگ پر خاتون نے خوشی کا اظہار کیا جس کا مطلب ہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے خاتون کو ہراساں نہیں کیا البتہ خاتون نے ویڈیو بنا کر اور آڈیو ٹیپ کرکے جسٹس جاوید اقبال کو ہراساں کیا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ جانے اس کو کس زاویے سے دیکھیں گے لیکن میری نظر میں خاتون نے مقدمات سے بچنے کے لئے جسٹس جاوید اقبال کو اپنی زلفوں کا اسیر کرکے ہراساں کیا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اب زیادہ دیر تک اس عہدے پر رہنا پسند نہیں کریں گے کیونکہ ملک کے خطرناک ترین کرپٹ لوگوں پر قابو پانا بھی بہت مشکل ہے اور دل کو قابو رکھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جسٹس جاوید اقبال جلد ہی دونوں میں سے ایک راستہ چن لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ طاہر اے خان کی برطرفی کافی نہیں ہے بلکہ وہ کردار بھی سامنے لائے جائیں جنہوں نے معاون خصوصی سے ”خاص کام“ لیا قوم جاننا چاہتی ہے یہ کام کس نے کیا؟

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat