حمزہ، شہباز اور دم چھلا


تاریخ ایک لمحہ میں بدل سکتی ہے۔ ایک موڑ، ایک ارتجالاً کہا گیا لفظ، یا کوئی ایک چال ہمیشہ کے لئے دنیا اور اس میں بسنے والے افراد کی زندگی بدل دیتے ہیں۔ لیکن اکثر دنیا کو قصداً سوچ سمجھ کر مناسب فیصلوں سے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی تو فیصلے دنیا کے لیڈر یا پھر وہ لوگ جن کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام کا ریلا تمام فیصلوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔ لیکن تاریخ کے اہم مواقع پریادگار فیصلے عام طور پر وہ ہوتے ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر اور ان کے ہونے والے نفع نقصان کو مد نظر رکھ کے کیے جاتے ہیں۔

سیاست صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کاکھیل ہے او ر غلط وقت پر صحیح فیصلہ کرجانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عوام کی نبض پہچان کر صحیح تشخیص کرنا اور فیصلہ دینا سیاسی پنڈتوں کی اصل کامیابی ہے۔ موافق و مخالف حالات میں موقع کے مطابق صحیح فیصلہ کر جانے والا امر ہوجاتاہے۔

اورنگ زیب جنگ ہار رہا تھا۔ اس کی فوج بھاگ چکی تھی۔ چند جان نثار ہی بچے تھے جو اس کے ہاتھی کے گردمزاحمت کر رہے تھے۔ فوج کو یہ تسلی دینے کے لئے کہ شہزادہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والا نہیں ہے اس نے حکم دیا ہاتھی کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دی جائیں۔

مغل شہزادے پر کوئی وار کرنے کو تیار نہ تھا۔ کیونکہ ریاستی اصول کے مطابق مغل شہزادے کو نقصان پہنچانے والے کا پورا خاندان ہی مار دیا جاتا تھا۔ داراشکوہ کو مشورہ دیا گیا کہ صرف آپ ہی یہ کام کرسکتے ہیں آگے بڑھ کر خود اس پر حملہ کریں۔ وہ ہاتھی سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ فوج میں افواہ پھیل گئی کہ دارا مارا گیا۔ ڈاکٹر برینئر نے لکھا ہے کہ ہندوستانی فوج فرانسیسی اور یورپین افواج کی طرح منظم نہیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی ایسی افوہ پھیل جاے تو بھگڈر مچ جاتی ہے کیونکہ فوج کے مفادات اس ایک آدمی سے ہی وابستہ ہوتے ہیں وہ ہی نہ رہا تو فوجیوں کو اپنی جان بچانے کی فکر پڑ جاتی ہے۔ دارا کے ہاتھی کو خالی دیکھ کر اس کی فوج بھا گ اٹھی۔ برینئرجو کہ اس وقت دارا کی فوج میں موجود تھالکھتا ہے کہ اورنگ زیب کا یہ فیصلہ اس کو دہلی کے تخت تک لے گیا اوردارا شکوہ کے فیصلے نے اس کو صحراؤں کی خاک چھاننے کی راہ پر ڈال دیا۔

سکندر جب گورڈیین نامی شہر پہنچاجو کہ موجودہ ترکی کے علاقہ اناطولیہ میں واقع تھا تو اس کو رسے کی ایک ایسی گرہ کے پاس لے جایا گیاجس کے بارے میں یہ پیش گوئی تھی کہ اس کوکھولنے والاپوری دنیا پر حکومت کرے گا۔ گرہ بہت ہی مشکل تھی اور اس کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا تھا اور صدیوں سے ایسے ہی موجود تھی۔ سکندر نے فوراًہی اس کو تلوار کے ایک وار سے دو حصوں میں کاٹ کر کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گرہ کو کیسے کھولا جاے۔ مسئلہ حل ہو نا چاہیے۔ ایک دوسری کہانی کے مطابق سکندر نے جس دھرا کے گرد رسی کی گانٹھ لگائی گئی تھی اس کی عمودی کیل کو چوٹ لگا کر نکال دیا جس سے رسی ڈھیلی ہو کر کھل گئی۔

جولیئس سیزر کے مخالف اس کی فتوحات اور عوام میں مقبولیت سے خوف زدہ تھے۔ اس پر الزام لگا کہ اس نے اجاز ت کے بغیر جنگوں کا آغاز کیا ہے۔ اس کو حکم ملا کہ فوج کی کمانڈ چھوڑ کر روم واپس آجاے۔ جس کا مطلب واضح تھا کہ اس پر مقدمہ چلا یا جاے گا۔ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ اپنی فوج سمیت روم میں داخل ہو۔ اس نے فیصلہ کیا کہ دریاے روبیکون کی حد کو بمع فوج پار کیا جاے گا۔ دریا پار کرتے وقت وہ کہتا جا رہا تھا کہ اب اس کا انجام چاہے موت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے مخالف اس خبر کو سنتے ہی شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔

Crossing the Rubicon اب ایک محاورہ ہے۔

فیصلے کون اور کیسے کرتا ہے؟ ہمیشہ یہی چیزدنیا کے حکومتی نظام، انصاف اور سماجی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری انفرادی زندگی اور قوموں کی زندگی بھی ہمارے کیے ہوے فیصلوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ملکوں کی تاریخ انہی فیصلوں کے مجموعہ سے بنتی ہے۔

فلاسفر فیصلوں سے ہمارے اور ہماری اقدار کے بارے میں معلومات اخذ کرتے ہیں اور تاریخ دان لیڈروں کے اہم مواقع پر کیے گئے فیصلوں کو جانچ کر آنے والی نسلوں کے لئے زاد راہ مہیا کرتے ہیں۔

فرانک نائٹ کہتا ہے کہ بہترین بزنس مین وہ ہوتا ہے جو اس راستہ پر چلے جس میں نقصان کا احتمال واضح ہو، چاہے جتنا مرضی ہو۔ یہ اس رستہ سے بہتر ہوتا ہے جس میں امکان تو کم نظر آتا ہو لیکن واضح نہ ہو۔ کیونکہ آپ واضح نقصان کو سامنے رکھ کر کام کریں گے تو اس سے بچنے او ر مقابلہ کرنے کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈھ لیں گے۔ نظر آتے دشمن سے تو بچا جا سکتا ہے گو مگو کی کیفیت کا حامل دوست بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔ نواز شریف اور مریم اس راستے پر چلے جو سیدھا جیل جاتا تھا۔

ان کو پتا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ حمزہ اور شہباز گو مگو کی کیفیت میں رہے۔ مستقبل صاف تھا نہ وعدوں کا اعتبار۔ صرف خوف زدہ کیا گیا تھا اور لالچ دیا گیا کہ تقدیر سنور جاے گی۔ مشکل اور الجھے ہوے حالات، محدودسوچ، کمزور ساتھی اور ذاتی مفادات فیصلہ کرنے والوں پر اثر انداز ہو کرمستقبل کو غلط سمت پر ڈال دیتے ہیں۔

ہر فیصلہ میں نقصان کا احتمال موجود رہتا ہے اس کے بغیر سیاست ممکن ہی نہیں۔ روزمرہ کے معمولات میں انسان ہمیشہ اس رستہ کو اپناتا ہے جس میں نقصان کا اندیشہ کم ہو۔ فرائڈ کہتا ہے کہ انسان کی حرکات اور فیصلے اس کے اندر چھپے ہوے خوف کا مظہر ہوتے ہیں۔ عوام بھی لیڈروں کے فیصلے سے ان کے اندر کا خوف جان جاتے ہیں۔ سیاست میں ایسے فیصلے کرنے والے بزدل رہنما کو عوام پسند نہیں کرتے۔

سب اندر تھے یا مقدمات بھگت رہے تھے۔ صاف نظر آرہاتھا کہ آنکھوں کے تارے کو چاند بھی آسمانوں سے اتارکر دیا جا سکتا ہے۔ جو ورغلاے گئے ان کو نواز دیا۔ جو ڈر گئے انہیں بھگا دیا، جو اکڑ گئے انہیں دبا دیا، جو نہ مانے انہیں پکڑوا دیا۔ باری لگ چکی تھی اب تو صرف عزت سادات ہی بچانی تھی۔ وہ بھی نہ بچا سکے۔ ستر کی دہائی تو ہے نہیں کہ لٹکا دیں گے۔ کیا ہو سکتا تھا؟ جو سمجھ گئے وہ امر ہوگئے۔ فیصلہ کا وقت تھا۔ فیصلہ واضح ہونا چاہیے تھا اور اس پر عوام کے ساتھ مل کر عمل کرنا چاہیے تھا۔ جمہوریت ابھی قربانیاں مانگتی ہے۔ یہ رستہ ابھی خاردار ہے۔ فیصلہ کا مطلب ہے کہ سوچنے کا وقت ختم اور کام کو شروع۔ فیصلہ کیا اور نہ ہی کام۔ بقول فیض،

آخر تنگ آکر ہم نے

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔

عوام تو اس سکندر کے انتظار میں ہیں جو ان کے گرد لپٹی ہوئی آمریت کی گرہ در گرہ رسی اور ان کے سینے میں ٹھنسا ہواآمر کے حواریوں کا عمودی آہنی کیل ایک ہی وار سے نکال باہر کرے۔ عوام اس کے لئے نگاہیں پتھر ائے بیٹھے ہیں۔ وہ اس کو کیسے قبول کر سکتے ہیں جو آمروں کا ساتھ دے یا پھر ان کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا ا ن کی لگائی ہوئی ریکھا کو نہ پھلانگے اور ادھر ادھر بھٹکتاپھرے۔ دریاے روبیکون کی بجائے دھرم پورہ کے گندے نالے کے جوڑہ پل کو پار کر کے ائیرپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔

لیکن اب مطلع صاف نظر آرہا ہے۔ اب تمام جمہوریت پسند قوتیں افطاری پر اکٹھی ہوئیں تو پتا چل گیا کہ کون عوام کا پسندیدہ ہے۔ تما م لیڈروں نے کس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کون منہ لٹکاے بیٹھا رہا۔ جمہوریت کی دلہن کا دلہا بننا تو ان کی قسمت میں تھا ہی نہیں۔ شہ با لا بننے کا موقع ہاتھ آیا۔ صحیح موقع پر غلط فیصلہ کر گئے۔ اب زیادہ سے زیادہ دلہن کے ساتھ دم چھلا (ٹیل کیرئیر) کے طور پر ہی چل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).