بیٹیوں کا نام رکھتے ہوئے کچھ تو سوچیں!


اللہ میاں جی! یوں تو ہم ہر وقت تجھ سے گلے شکوے کرتے ہی رہتے ہیں ذرا سی تکلیف ہوئی تو رونا شروع ہوگیا ہمارا۔ لیکن اب تو حد ہی ہوگئی۔ یا اللہ! تُو نے عورت کیوں پیدا کی اور پھر خوب صورت ننھی فرشتوں جیسی فرشتہ بچیاں کیوں بنائیں؟ کیا تجھے معلوم نہ تھا یہ بھیڑیوں کا جنگل ہے، جنگل جہاں رستہ بھٹکتا نہیں بھٹکایا جاتا ہے۔ ہائے ربّا! تُو نے کومل کلیاں روندنے کو تو نہ بنائی تھیں۔ دنیا میں ہر چیز کا متضاد ہے دن کا رات، روشنی کا اندھیرا، خوشی کا غم اور فرشتے کا شیطان ہاں وہ کوئی شیطان ہی ہوگا انسان تو ہو نہیں سکتا۔

دل خون کے آنسوؤں میں ڈوبا ہوا ہے۔ کیسے کیسے دلخراش وحشیانہ واقعات اس ماہِ مقدس میں ہورہے ہیں۔ کیا کریں! ہم کتنے نوحے لکھیں! کِس کِس کا رونا روئیں۔ ربّا تُو نے تو فرمایا تھا کہ رمضان میں شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کیسی زنجیریں ہیں مولاجو کھُل کھُل جاتی ہیں۔ نہیں کھُلتی تو شرم و حیا کی آنکھیں جن پہ جنسی ہوس کے بھاری پپوٹے اتنا بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ معصوم بچیوں کے ریپ سے بھی نہیں چُوکتے۔

زہرہ آپا کہتی ہیں کہ جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ زہرہ آپا! کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہم جانوروں کی رذیل سطح سے بھی کہیں بہت نیچے آگرے ہیں۔ شہرِ اقتدار جو سب سے محفوظ شہر گردانا جاتا ہے وہیں ایک سادہ شریف النفس سبزی فروش گل نبی مہمند کے نام سے ایک عرصے سے مقیم ہے۔ اس کی ایک کومل سی، پیاری سی بیٹی بھی تھی، نجانے یہ بیٹیاں اتنی پیاری کیوں ہوتی ہیں؟ پندرہ مئی کو یہ پیار ی سی بیٹی جس کا نام بھی فرشتہ تھا گھر سے کہیں کھیلنے کو نکلی مگر پھر گھر واپسی کا رستہ کھو بیٹھی رستہ کیا وہ تو اپنی عزت اور جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی۔

فرشتہ کا باپ گل نبی مہمند جب گلی کوچوں میں اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا تو تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گیا تو ایس ایچ او کی جانب سے کہا گیا کہ شاید آپ کی بچی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو ذرا بے حیائی کا اندازہ لگائیے زخموں پہ نمک چھڑکنا اسے کہتے ہیں۔ دُکھیارے بابل کو تین چار دن مسلسل خوار کرنے کے بعد پولیس ایف آئی آر تودرج کرتی ہے لیکن کوئی تحقیقات نہیں کرتی۔ اطلاعات کے مطابق ٹھیک پانچ دن بعداسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین اس علاقے میں ایک جنگل سے گزر رہے تھے تو کسی بچی کی نامعلوم لاش پڑی ہوئی ملی جس کی شناخت بدنصیب فرشتہ مہمند کے نا م سے ہوئی۔

اس کا دُکھیارا باپ بِلبِلا اُٹھاکہ بچی کا چہرہ بھی پہچانا نہ جا رہا تھا اس نے اپنی بِٹیا کو اس کی چُنری سے پہچانا۔ فرشتہ کی مَسلی ہوئی لاش جب جنگل سے ہسپتال پہنچائی جاتی ہے تو وہاں بھی اس کا پوسٹ مارٹم ہونے نہیں دیا جاتا پھر اس کے دکھی لواحقین کسی فلاحی تنظیم کے کارکنوں سے مل کر روزے کی حالت میں سخت گرمی میں شہرِ اقتدار کے چوراہے پر لاش رکھ کر احتجاج کرتے ہیں تو میڈیا کے ذریعے یہ خبر ملک بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔

اسلام آباد کی پولیس کی کارکردگی تو سب پہ عیاں ہوگئی ہے کہ ایک معصوم فرشتہ لاپتہ بچی کی ایف آئی آر بھی ان سے کاٹی نہیں جارہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے دورِ اقتدار میں یہ انسانیت سو ز واقعہ پیش آیا جو شہرِ اقتدار کی نام نہاد مثالی پولیس کے پورے نظام کے منہ پر ایسا طمانچہ ہے جس کی گونج سے پورا ملک لرز اُٹھا۔ ظالمو! کیوں بھول گئے کہ یہ مبارک مہینہ تو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی خوشنودی کو پانے کا مہینہ ہے۔

رسالت مآبؐ کا فرمان تو بچوں سے شفقت کے معاملے کا ہے یہ ہم کدھر کو چل پڑے؟ کب تک ہمارا ملک پولیس کے فرسودہ نظام کا مرہونِ منت رہے گا؟ پولیس کب عوام کی مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار رہے گی؟ کب اپنا فرض پہچانے گی؟ فرشتہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم تک پہنچا دی گئی ہے۔ دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور صاحب نے بھی اس کیس میں شامل ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن اقدام کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ سب کچھ باعث ِ تحسین سہی لیکن افواجِ پاکستان سے ہر ماں کی درخواست ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تمام قوانین پہ فوری اطلاق کروائیں۔

معصوم ننھی فرشتہ تو مرنے کے بعد جنگل میں پڑی بے یارو مددگار ڈرتی رہی ہوگی۔ دوسری طرف میری تمام ماؤں سے التجا ہے کہ خدارا! اپنے بچوں کو تنہا کہیں بھی نہ جانے دیں۔ باہر بھیڑیے منہ کھولے بیٹھے ہیں جن کو کسی کی پہچان نہیں بعید نہیں کبھی یہ۔ ماؤں کے قدموں تلے جنت کی خوش خبری تو رب ذُوالجلال نے سُنا دی لیکن جنت کے اس حصول کے لیے ماں کو سنگلاخ چٹانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لیے اپنی روح کو جلانا پڑتا ہے۔

اپنا آپ مار کے بچوں کے لیے جینا پڑتا ہے۔ اپنی آنکھوں کو ہر وقت بچوں کی حرکات و سکنات پہ مرکوز کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اس جنت کا شائبہ مل جائے شاید۔ ہمارے سماج میں بیٹوں کی تربیت پہ قطعاً توجہ نہیں دی جاتی بیٹوں کو بھی آگ کے دریا میں اُترنے سے بچانا ماں باپ کا فرض ہے۔ بیٹوں کو بھی تاریک راہوں میں چلنے سے بچانے کے لیے اُن کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہر رشتے کا تقدس سکھانا ہوگا۔ قصور کی زینب کے مجرم کا انجام تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔

اگر اس کے ماں باپ نے اس کی تربیت کی ہوتی تو اس کا انجام اتنا خراب نہ ہوتا۔ کب تک ہم صرف لڑکیوں پر پابندیاں لگاتے رہیں گے اور لڑکوں کی عزت کو مجروح ہونے کے لیے بیچ چوراہے میں چھوڑ دیں گے۔ کہتے ہیں کہ دہائیاں پہلے اس ملک پہ ایک آمر حکومت کرتا تھا۔ 1981 کی بات ہے، لاہور باغبانپورہ کے علاقے میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا جس کی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی۔ اس آمرنے قاتلوں کو سرِ عام پھانسی دی۔

آج جمہوریت ہے عصمتوں کے لُٹیرے، اغوا کار، قاتل اور چوروں نے حشر بپا کیا ہوا ہے۔ آج ضابطے اور قانون ہیں لیکن غریب اور مظلوم کا استحصال ہورہا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ جمہور کے بادشاہوں کا ضمیر کب جاگے گا؟ خدارا! سماج میں ہر انسان کو اپنا کردار بھرپور اندا ز میں ادا کرنا ہوگا۔ آخر میں لرزتے ہاتھوں اور ریزہ ریزہ دل سے لکھ رہی ہوں کہ ماں باپ بیٹیوں کا نام رکھتے ہوئے کچھ تو سوچ لیں۔ فرشتہ۔ کہیں کوئی شیطان دوبارہ کبھی کسی فرشتہ کو نہ نوچے۔ اے خدا! ہمیں چاندی سی ٹھنڈی صبحیں خیرات کردے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).