پریشاں سا پریشاں


کوئی ڈیڑھ عشرہ پہلے کی بات ہے کہ میری، مبنی بر تحقیق کتاب ”محبت۔ تصور اور حقیقت“ شائع ہوئی تھی۔ درحقیقت میں نے اس نوع کی تحقیق کو تین حصوں میں منقسم کیا تھا۔ ارادہ تھا کہ اگلی جلد ”مباشرت۔ تعیش اور ضرورت“ اور آخری ”مناکحت۔ تعلق اور کدورت“ ہوگی بلکہ میں نے یہ پہلی ( پھر اس ضمن میں آخری ) کتاب جب اپنے دوست نذیر لغاری کو تحفہ کی اور اس کی کار میں سوار کہیں جاتے ہوئے مزید دو کتابیں لکھنے کا ذکر کیا جس میں اوپر لکھے عنوان بھی شامل تھے تو لغاری نے گاڑی چلاتے اور سامنے سڑک پر دیکھتے اپنی روایتی سنجیدگی کے ساتھ مادری زبان سرائیکی میں کہا تھا، ”وت کوشش کر کراہیں ہنیں کوں انٹر دے کورس اچ ای شامل کرا چھوڑیں“ یعنی ”پھر کوشش کرکے ان ( کتابوں ) کو انٹرمیڈیٹ کے کورس میں بھی شامل کروا دینا“ جس پر ہم دونوں بیک وقت قہقہہ بار ہو گئے تھے۔

خیر میں نے مباشرت یعنی جنسی عمل بارے بہت سا مواد پڑھا، اکٹھا کیا، نوٹس وغیرہ لیے مگر مجھے تسلی نہ ہوئی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اس وسیع و بسیط موضوع کے لیے مزید بہت پڑھنے اور مواد جمع کرنے کی ضرورت ہے، یوں جانیے جیسے میں مایوس ہو گیا چنانچہ میں نے بال پوائنٹ اور پیڈ اٹھایا اور اپنی جوانی سے پلتی خواہش پر عمل درآمد شروع کر دیا مطلب بزعم خود ایک عام آدمی کی خودنوشت کو الفاظ میں ڈھالنے لگا۔

پہلا حصہ تین چار ماہ میں مکمل ہو گیا۔ حسب معمول کتاب ایک ڈیڑھ سال نہ چھپ پائی تو دوسرا حصہ لکھ ڈالا، پبلشر نے کہا کہ دونوں حصے ملا کر شائع کر دوں گا۔ مگر آج کل، آج کل کرتے کئی سال بیت گئے لیکن کتاب شائع نہ کی۔ دوسرے حصے کے ابتدائی ابواب جو ڈاکٹر بننے کے بعد اور فوج میں ملازمت کے بارے میں تھے روف کلاسرا کے ویب پیپر ”ٹاپ سٹوری آن لائن“ میں، جسے لندن سے میرے دوست اور صحافی ندیم سعید ایڈمنسٹر کرتے تھے، شائع ہوئے۔ اس اشاعت کے سبب بہت اچھے لوگ جو بعد میں لکھنے بھی لگے شناسا ہوئے تھے جیسے عدنان خان کاکڑ، عثمان قاضی، وسی بابا اور کئی دوسرے۔

قصہ مختصر دو سال پیشتر پبلشر نے میرے استفسار پر ناراحت ہو کر نہ صرف چھاپنے سے یکسر انکار کر دیا بلکہ الٹا مجھ سے کمپوزنگ کرانے اور بٹر پیپر پر اتارنے کا معاوضہ بھی بطور زر تلافی طلب کر لیا ( جی ہاں 2015 میں میں نے عرق ریزی سے بٹر پیپر پر اتارے مسودے کی پروف ریڈنگ بھی کر کے دی تھی ) ۔

میں تو اس کی اشاعت سے ہی بددل ہو گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پبلشر نے مجھے پی ڈی ایف فائل دی تھی جو ان پیج میں منقلب نہیں ہو سکتی تھی یوں پروف ریڈنگ ممکن نہیں تھی۔ کوئی چھ ماہ قبل مجھ سے ایک خاتون وکیل دوست اور مداح نے رجوع کیا اور تجویز دی کہ کچھ لوگوں سے مالی معاونت لے کر اسے شائع کروایا جائے پر میرا دل نہ مانا۔ ساتھ ہی برادرم زاہد کاظمی جن سے دو سال پہلے ہی ملاقات ہوئی تھی اور میں اتنا ہی جانتا تھا کہ ان کی ہری پور میں اپنی اچھی خاصی لائبریری ہے، نے بیڑہ اٹھایا کہ وہ اس کتاب کو شائع کریں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ کتاب کو پھر سے کمپوز کرانا پڑے گا۔ انہوں نے تصمیم سے کہا کوئی بات نہیں میں نو روز میں کمپوز کروا لوں گا۔ یوں انہوں نے سترہ روز میں کمپوز کروا کے رف پی ڈی ایف مجھے بھجوا دی۔ پروف ریڈنگ کی ذمہ داری لی اور وعدہ کیا کہ پاکستان میں میری آمد کے بعد کتاب کی رونمائی کی جائے گی۔

کتاب پریس میں بھیج دیں تو اشاعت میں دیر لگ جاتی ہے۔ جلد بندی تو بارش تک سے متاثر ہوتی ہے۔ مجھے ماسکو لوٹنا تھا۔ گرمی بھی بڑھنے لگی تھی۔ کاظمی صاحب نے کہا کہ ہم گلگت ہنزہ جائیں گے۔ میں 13 اپریل کو ہی راولپنڈی پہنچ گیا تھا۔ 22 اپریل کو مجھے ماسکو سے آئے 3 ماہ ہو جانے تھے، جس روز ہم گلگت ہنزہ کے مختصر دورے کے بعد لوٹے اور میں کاظمی کے ہاں چند روز قیام کی خاطر ہری پور میں ہی اتر گیا تھا۔ کتاب دیر میں ملی تو رونمائی کو رمضان کے بعد تک ملتوی کرنا پڑا۔ مجھے چونکہ کسی ٹھنڈے مقام پر روزے رکھنے تھے وہ کاظمی صاحب کے گھر کا وہ کمرہ رہا جو اوپر نیچے، دائیں بائیں، اکناف و اطراف سے ڈھکا ہونے کے سبب اتنا ٹھنڈا ہے کہ پنکھا بہت ہلکا چلانا پڑتا ہے اور سوتے ہوئے دہری چادر اوڑھنا پڑتی ہے۔

کاظمی اور ان کی اہلیہ نے مجھے اپنے گھر اپنے بزرگ کی طرح رکھا ہوا ہے۔ خواہش ایسے پوری ہوتی ہے جیسے جنت میں ہوں۔ پھر کیف یوکرین سے اپنے گھر ہری پور پہنچے ایک فیس بک فرینڈ ڈاکٹر مسرور قاسم مل گئے جو خیر سے متمول بھی ہیں، وہ روزانہ اپنی کار میں کبھی ایبٹ آباد تو کبھی نتھیا گلی تو کبھی اسلام آباد لے جاتے ہیں، افطار، ڈنر اور بعض اوقات سحری تک کرواتے ہیں۔

اب آتے ہیں کتاب کے عنوان ”پریشاں سے پریشاں“ کی طرف جسے بیشتر لوگ ذہنی طور پر پریشان خیال کرتے ہیں جبکہ فارسی کے اس لفظ کا مطلب بکھرا ہوا ہے۔ کاظمی، ان کی اہلیہ اور ڈاکٹر مسرور میرے بکھراؤ کو جمع کرنے کا جتن کر رہے ہیں۔ اس اثناء میں کتاب بھی لوگوں تک پہنچائی جا رہی بلکہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے کچھ بک سٹورز کو بھی بھیجی گئی ہے۔ کتاب میں غلطیاں ہیں، فونٹ کا بھی بکھیڑا ہے مگر 702 صفحات کی اس کتاب کو ڈاکٹر انوار احمد سے لے کر معروف افسانہ نگار دوستوں اخلاق احمد اور محمد حمید شاہد نے بھی پسند کیا ہے۔ ہمارے دوست جواد شیرازی یعنی جواد ابن خلیل اس پر مبسوط تبصرہ بھی کر چکے ہیں۔ تعارف تو دسیوں لوگ فیس بک پر لکھ چکے ہیں۔

زاہد کاظمی جن کو کتابیں بالخصوص آپ بیتیاں جمع کرنے اور پڑھنے کا شوق اور ذوق ہے اور جن کے بقول ان کے پاس پاکستان میں آپ بیتیوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے، دعوی کرتے ہیں کہ کتاب ”پریشاں سا پریشاں“ برصغیر میں گذشتہ ڈیڑھ صدی میں لکھی گئی دس بہترین آپ بیتیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ان کی رائے ہے اور بہت سوں کے مطابق مستند۔ چنانچہ اگر آپ بھی پڑھنا چاہتے ہوں تو زاہد کاظمی صاحب کو 03345958597 پر فون کر لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).