لڑکی کو حیوانیت کا نشانہ بنانے کے بعد تیزاب پھینکنے والا پیر


کچھ کنفیوژن ہے سمجھ میں نہیں آرہا عقیدت مندی زیادہ طاقتور رشتہ ہے یا ممتا۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی وہ خاموشی سے کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی اس کو اپنی جانب ایک مجع محسوس ہوا اکثر ایسے مجمعے یا تو کسی حسن کی محفل کی طرف بڑھنے کے لیے ہوتے ہیں یا کہیں کوئی تماشا لگا ہو تب ایسا منظر دیکھنے کو ملتا۔ رابعہ کی عمر تقریبا بائیس سال ہوگئی اور وہ سرگودھا کے ایک ایسے گاؤں سے تعلق رکھتی یہاں اپکو عقیدت مندی کے کئی مظہر نظر ائیں گاؤں سے تعلق تھا اس لیے کبھی شہری دنیا نہیں دیکھی یہاں شہر میں تو عجب رونق ہے قہقہے رنگیاں سب کچھ ہے مگر رابعہ کو یہ سب اچھا محسوس ہونے کے باوجود بھی عجیب سی جھجک محسوس ہورہی تھی۔

رابعہ کا خاندان سرگودھا کے کسی جلالی پیر صاحب کا عقیدت مند تھا خاندان سے چلتا ارہا تھا کہ گھر کی عورتیں جلالی پیر کے گھر کی خدمت گزار ہوتی۔ سکینہ بی بی (فرضی نام) کے ہاں رابعہ نے جنم لیا تو سکینہ بی بی اور اس کے شوہر نے بیٹی کو بھی پیر کی عقیدت مندی کا اجر قرار دیتے ہوئے نوعمری میں رابعہ کو پیر کے ڈیرے پر چھوڑ دیا رابعہ وہیں پر آسمانی قرآنی اور اسلامی باتیں سکھ کر جوان ہوئی۔ رابعہ کے علاوہ بھی علاقہ کی کئی بچیاں اس پیر کے خاندان کی مرید تھیں ڈیرے پر انے جانے والوں کو کھانا چائے دینا ان کے گھر کا کام کرنا اور پیرو فقیری کی باتیں پھیلانا ان کا بنیادی کام تھا۔

جلالی پیر صاحب ایک دن طیش میں آگے رابعہ کو اپنے ڈیرے پر بلایا اور درندوں کی طرح نوچتے ہوئے حیوانگی کا نشانہ بنایا رابعہ چونکہ شکل کی اچھی تھی اور اس کی آنکھوں نے پیر صاحب کا بھیانک چہرہ دیکھ لیا آنکھوں میں خوف لیے رابعہ سارا سارا دن چھپ چھپ کر روتی اور دعا کرتی کہ کبھی رات نہ ہو کیونکہ وہی کہانی دہرائی جائے گی وہی ازیت سہنے کوملے گی۔ پیر جلالی کی ہر ممکن کوشش تھی رابعہ دیگر مریدنیوں کی طرح اس کے آسیب زدہ جال میں پھنس جائے معاملہ کچھ روز یونہی چلتا رہا رابعہ نے ہمت کرکے کسی رشتے دار کو یہ قصہ بیان کیا تو پیر صاحب نے رابعہ کے چہرے پر تیزاب ڈال کر اس کو جلا دیا اور ایک کال کوٹھری میں بند کرکے لوگوں کو بتلانے لگا کہ رات کو جنات حاضر ہوئے انہوں نے مریدنی کو حالات غیر میں دیکھا تو طیش میں آکر اس کا چہرہ مسخ دیا۔

رابعہ کے والدین بیٹی کو دیکھنے آتے اور چند روپے لے کر واپس روانہ ہو جاتے دو سال سے پیر صاحب کا جادو ٹونے کا کام بھی عروج پر پہنچ گیا تھا کیو نکہ لوگوں کو یقین ہوچکا تھا کہ پیر صاحب کے موکل کافی طاقتور ہیں اور اب کسی کو مروانا ہو کسی کا کاروبار روکنا ہو کسی کو برباد کرنا ہو تو جنات فورا عمل پیرا ہوں گے۔ رابعہ لوگوں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جانے لگی لوگ اس کو دیکھ کر حقارت کی نظر سے توبہ کرتے اور پیر کے پاوں پکڑ لیتے یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلا لیکن اس سارے قصے کا سین ڈراپ تب ہوا جب کسی اللہ کے بندے نے رابعہ کو جلائے جانے کا واقعہ رپورٹ کیا اور اس کی آواز اس کال کوٹھری سے باہر نکلی پیر صاحب نے رابعہ کے اہل خانہ کو بلوا کر تنبیہ کی کہ اس سارے معاملے کو دبایا جائے ورنہ اس گاؤں پر قہر نازل ہوسکتا۔

رابعہ جناح ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کے چہرے کو دیکھ کر انسانیت سے خوف انے لگتا ہائے اللہ انسان ایسا ظالم کیسے ہوسکتا کہ کسی زندہ جاگتے انسان کو ازیت دے کر اس کی زندگی اس کا سب کچھ چھین لے۔ رابعہ کی آنکھوں کی جگہ دو سوراخ ہے صرف جبکہ چہرے کی ساری جلد اتر چکی ہڈیاں نظر اتیں ہونٹ ناک سب بگڑ چکا۔ بوڑھے والدین ٹوٹی پھوٹی اردو پنجابی میں خوف سے بس اتنا بتا پاتے کہ پیر صاحب نے کچھ کردیا ہے اور کہیں نہ کہیں بوڑھی ماں کے چہرے پر ابھی عقیدت مندی نظر اتی جس کو یہ لگتا کہ یہ اللہ کا کیا ہوا کام ہے ہم کیا کر سکتے ہیں اللہ نے ایسے لکھی تھی۔

ہائے آخرت میں اس شخص کا انجام کیا ہوگا حققیت یہ کہ انسان جو کچھ کرتا اس کی سزا اس کو دنیا میں ہی مل جاتی بعد ازاں موت مستقل جہنم رسید ہوں گے یہ ایک واقعہ ہے ایسے کئی واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہوتے مگر ہم لوگ خاموشی سے اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جاتے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انسانی درندگی اللہ کی رضا کیسے ہوسکتی پھر امیری غریبی بیماری شفا دوستی دشمنی کو اللہ کی رضا کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے آپ کو انسان سمجھیں ایسے گندے لوگوں کو عبرت کا نشان بنائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).