لاہور اپنا اپنا!


زمانے بدل گئے، لوگ وقت کی قید سے باہر نکل کر زمین میں شامل ہو کر ابد میں قید ہوگئے، مگر رہ گیا ہزاروں سال پرانا شہر ”لاہور“۔ انسان بھی کلاسیکی ادب کی مانند زندہ رہنا پسند کرتا ہے، وہ زندگی میں تاریخ اور مستقبل کی تصویر بناتا ہے۔ وہ اپنی فہم وفراست کو مستقبل کے آئینے میں دیکھنا پسند کرتا ہے جس کے لئے وہ اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے احتیاط اور جرات کے امتزاج سے تہذیبی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔

سرگودھا میں ابتدائی تعلیم کے بعد میں نے اپنا شہر ”لاہور“ انتخاب کیا۔ آخر مجھے بھی آگے بڑھنا تھا۔ میٹرک میں امتیازی نمبر حاصل کیے تو داخلہ بھی لاہور کالج فاروومن میں عزت و آرام سے ملا۔ بس اب میں بے وفائی کے دور میں داخل ہو گئی کہ ”محبت لاہور“ نے میرے مختصر ماضی کو پرے دھکیل کر اپنے تہذیبی اور ترقی کے حسن و جمال کے دامن میں لپیٹ لیا۔ پہلے تو گرمیؤں کی چھٹیوں اس لاہور میں اپنی نانی کے گھر آتے تھے، مگر اب تو میں نے فتح ہی کر لیا تھا بہتے صاف شفاف راوی کے لاہور کو۔

1848 میں انگریزوں نے پورے پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس دور میں انگریزوں نے لاہور میں ے شمار تعلیمی ادارے جن میں گنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، انجینرنگ یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ایچیسن کالج، گورنمنٹ کالج، لاء کالج، میو سکول آف آرٹس، کنیرڈ کالج کے علاوہ بے شمار سکول قائم کیے۔ اس کے علاوہ لاہور کی چھاؤنی یعنی کینٹ جہاں میرے بڑوں اور میرا گھر رہا، وہ کینٹ بھی انگریزوں نے بنوایا۔ مال روڈ جو ہر لاہوری کا عشق رہا وہ بھی انگریز کے دور میں بنی اور اس پر موجود سیکریٹریٹ کی عمارت لارنس گارڈن، عجائب گھر، ٹولنٹن مارکیٹ، اور دیگر بڑی بڑی عمارتوں کے علاوہ لارنس لائبریری موجودہ قاعد اعظم لائبریری بھی اس دور کی نشانیاں ہیں۔ لاہور کا جدید اور منفرد بنیادوں پر بنا ریلوے اسٹیشن بھی انگریزوں کے دور میں ہی بنا۔

لاہور 1860

قیاس کیا جاتا ہے کہ رام کے بیٹے ”لوہ“ نے اس شہر کی بنیاد رکھی اور قلعہ بنوایا ؛ شہر لاہور کا نام بھی اس ہی کے نام پر رکھا گیا جسے وقت کی گھڑیوں نے ”لاہور“ میں تبدیل کر دیا۔ مگر لاہورُ کی طلسماتی نگری ”کرشن نگر“ جہاں پاکستان کے بڑے بڑے نام پروان چڑھے جب میں بیاہ کر اپنے سسرال کے آبائی گھر میں وہاں منتقل ہوئی تو ششدر رہ گئی ”میرا لاہور“ اس کرشن نگر کے لاہور سے مختلف تھا۔ میرے لاہور کے ماحول میں بیگمات دن کے دس گیارہ بجے گھر گھر ستّی سے فارغ ہو کر لیڈیز کلب میں اکٹھی ہوتیں جہاں پر فیشن کے ساتھ ساتھ سیاست، ملکی ترقی اور زمانے کی بدلتی ہواؤں کو بھی زیر موضوع بنایا جاتا تھا۔ میری نانی بھی اس محفل باوقار میں اکثر حاضری دیا کرتی تھیں۔ اور یہ خواتین جب تنبولہ کھیلتیں توبوجوہ حفظ مراتب جنرل اور برگیڈیر کی بیگمات کو کم کم ہار کا منہ دیکھنا پڑتا۔

آج بھی میرے اس ”نئے لاہور“ کی پہلی صبح کی یادوں کے منظر نامے سر فہرست ہیں۔ جہاں پرالل لصبح گلی میں پراندے اور ناڑے بیچنے والا للی محاوراتی انداز اور دھیمے لحجے میں آواز لگا کر پاک دامن خواتین کو خریداری کا پیغام پہنچاتا۔ میرے نئے لاہور کا مسکن ایک حویلی نما گھر ”جیون بھون بلڈنگ“ تھا۔ جس کی تعمیر ایک امیر سکھ بھون سنگھ نے 1936 میں کروائی اور تقسیم ہند کے وقت اسے یہ گھر یعنی ”اپنا لاہور“ چھوڑ کر جانا پڑا۔

یہ نیا پاش علاقہ ان دنوں اندرون لاہور کی سرحد سے باہرا ور ملحقہ تھا، ہندوں کی آبادی کے لعل و جوہر یہاں آباد تھے۔ جبکہ مسلمانوں کی ادھر صرف دو عمارتیں سراج بلڈنگ اور نوری بلڈنگ ہوا کرتی تھیں۔ بٹوارے کے وقت لوگ ادھر سے ادھر کیا ہوئے، تہذیبیں بھی منتقل ہو گیں۔ یہاں سے جانے والے لوگ لاہوری تہزیب کو اپنے ساتھ لے گئے اور نئے آنے والوں نے لاہور کے تہذیبی رویوں میں منفرد اضافہ کیا۔ ”نیلی بار“ پہلے جہاں پر دنیا کی بہترین شرابیں دستیاب تھیں پھر وہاں پر ادیبوں کے ڈیرے اور مشاعرہ بازی کی فضا میں کلاسیکی ادب کی تسطیر نفس کا سماں بننے لگا۔

صوفی تبسم، اشفاق احمد، منو بھائی، روحی کنجاہی، کامران اور کشور ناہید سمیت بے شمار ادیب اس علاقے میں آکر بسے اور احساس فخر میں ہی ڈوبے رہتے تھے۔ میرزا ادیب کا گھر وہیں پاؤنڈ و سٹریٹ پر اس علاقے کا آخری مکان تھا، اس سے آگے ہرے بھرے کھیت ہی ہوا کرتے تھے اور جب حاجی نتھے خان داتا دربار کی مسجد میں روزانہ فجر کی آذان دیتا تو اس کی آواز کرشن نگر کے ہر گھر میں گونجتی تھی۔

داتا کی نگری کا لاہور جہاں پر لوگ بے سرو سامان آتے ہیں اور امیر ترین ہو جاتے ہیں۔ درویشوں، صوفیوں اور حضرت میاں میر صاحب کا لاہور جہاں پر اہل تیقن کواندیشوں سے آزادی اور دشمنوں سے نجات مل جاتی ہے۔ یہاں بے گھر لوگوں کو فٹ پاتھوں اور باغوں میں میں سونے پر منع نہیں کیا جاتا تھا، یعنی لاہور امیر اور غریب سب کو پناہ دیتا ہے۔ مہمان نوازی، وضع داری اور رشتہ داریوں کو نبھانا مقامی لاہور یوں کے مزاج کا اہم خاصہ ہے۔ نارو وال کے آخری اسٹیشن سے لے کر نوشکیی کے برفاب پانیوں کی جھلک لاہور میں ملتی ہے۔

حفیظ جالندھری کی قبر مینار پاکستان کے احاطے میں اور علامہ اقبال کی تدفین قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیانی علاقے میں ہونا لاہور کے فہم و فکر، ثقافت کے ساتھ ساتھ اہل دانش کے احترام وازن کی دلیل ہے۔ ہمارے پیارے دوست واصف علی وصف کا دربار میانی صاحب قبرستان میں بنا اور مریدوں ہجوم اس شہر کے احسانوں کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔

لاہور میرے لئے ایک محبوب سے کم نا رہا، ایک عرصہ ملک سے باہر رہی، دل کو چیرتا تھا تو لاہور کی محبت کا تیر جو قلم کی کمان سے نکل کر مجھ سے ”شہر بے وفا“ لکھوا گیا۔ لاہور سے دور ہوئی تو گویا زندگی کے تصور سے محروم ہوئی، اس بے بسی کے دور میں کسی آرزو ئے سرگرداں میں نارہی۔ پس عالم تحیر میں بیٹھے بیٹھے وہاں سے لاہور کے فاصلوں کو ناپتی رہی اور پھر ایک دن شہنشاہ دل کی سواری کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر دلربا میں دوبارہ آبسی۔

اب تو مجھ پر لاہور کی برکتوں کا ایک عالم برپا ہونا شروع ہوا۔ ہر طرف سے رجوع نور کی بارش برسنے لگی۔ میری مجبوری میں ڈوبی صلاحیتوں کا ستارہ چمکنے لگا دمکنے لگا۔ دن رات بنا کوشش کیے بغیر کانفرنسوں، مشاعروں اور مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میرے رفقا اور دوست احباب کیا، کبھی کبھی میرے لئے بھی یہ غیر معمولی پذیرائی سمجھ سے باہر ہو جاتی۔ ایسے میں اپنے غیر ہونے لگے۔

مگر یہ سب کیسے ممکن ہوا، چشم بینا تو بے نور ہو کر پہچان سے کوسوں دور مٹی میں اٹی پڑی تھی۔ ہر عام و خاص نے مجھ پر نظر کڑی رکھنی شروع کر دی اور میں نے بھی اپنے آپ کو غروروفنا کے دیس سے تھا آزاد کر لیا اور دل میں شہر لاہور کی محبت کو صرف تھا آباد کر لیا۔ خیال میں وجدان کی طاقت مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگی۔ خیال کے آتے ہی بلاوہ ای میل میں تیار پڑا ہوتا تھا۔

ارے یہ کیا خیبر پختونخوا کی صوابی یونیورسٹی سے پروفیسر محمد رحما ن نے پہلا یادگاری مشاعرے کا پرزور بلاوہ دیا۔ پھر تو پروفیسر زینی بھی اس اصرار میں شامل ہو گیں۔

میں ڈر گئی کہ خیبرپختونخوا والوں کو کس نے اطلاع دی کہ بینا گوئندی واپس پاکستان آ چکی ہیں، میری تو راتوں کی نیند ہی اڑ گئی۔ مصدقہ حقیقت ہے کہ جب ایک دوسرے میں فاصلے ہوں تو خوف کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ فاصلے میلوں کی مسافطوں کے علاوہ طبقاتی فاصلے بھی ہوتے ہیں۔ ہم قریبی رشتوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمارا ان کا ذہنی فرق ہے، ایک گھر میں پلنے والوں کو جب ایک دوسرے کے دکھوں کا احساس نا ہو تو وہ کچھ مانگ نا لے کا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔

میں نے دو چار معززین سے دریافت کیا کہ صوابی یونیورسٹی میں جانا کیا ایک اچھا تجربہ ہو گا، مگر یقین کریں ان پروگریسو لوگوں نے بھی مطمئن جواب نا دیا۔ بس میں نے صوابی والوں سے کہا کہ میرے ساتھ میرا ایک شاعر ساتھی بھی ہو گا۔ ان اللہُ کے نیک لوگوں نے میری اس فرمائش کو پورا کیا اور یوں میں اور شاہد رضا لاہور سے صوابی کے لئے روانہ ہو ئے۔ وعدے کے مطابق یونیورسٹی کے پروفیسروں کا ایک قافلہ اسلام آباد پشاور موٹروے کے صوابی انٹر چینج پر گاڑیاں لے کر ہمارے استقبال کے ُلئے کھڑا تھا۔

اس قافلے کے روح رواں پروفیسر جناب ڈاکٹر محمد رحمان صاحب اور ان کے ساتھی پروفیسر ڈاکٹر سبحان تو جو خوش تھے وہ تھے۔ مگر میرے روبرو تو ایسے لگتا جیسے دو فرشتے تھے اور مجھے اپنی سوچ اور خوف پر بے حد ندامت ہوئی۔ آج تک میں نے صوابی کے حوالے سے ایک ہی نام سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا ہی سنا ہوا تھا۔ گاڑی میں سفر جاری تھا دونوں اطراف سبزہ ہی سبزہ تھا، اپنا علاقہ دکھاتے دکھاتے بیس منٹوں میں ایک کچی پکی آبادی میں ہماری گاڑی داخل ہوئی اور چند منٹوں بعد انہوں نے گاڑی روک کر اترنے کو کہا اور بولے ”ویلکم ٹو لاہور میڈم“ میں نے کہا جی میں لاہور سے آئی ہوں مگر وہ بولے میڈم ”آپ ابھی بھی لاہور میں ہی ہیں، مگر یہ صوابی کا لاہور ہے، سکندر اعظمُ کا لاہور ہے، راجہ انند پال کا لاہور ہے“ اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتے میں نے بڑھ کر کہا ”اور اب یہ بینا گوئندی کا لاہور بھی ہے، “ لاہور کے مقدر میں فتح ہونا لکھا ہے گویا آج میں نے ایک اور لاہور فتح کر لیا۔

دریافتوں کا یہ سلسلہ سانس کی ڈوری کے ساتھ جڑا ہے مگر ہم عجلت بازی میں منزلوں کو راستے میں چھوڑ آتے ہیں۔ میں اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی، میرا گائیڈ میرے خیال کا خالق اور میرے وجود کا مالک ہے۔ مگر میں ہمیشہ رک کر اس کی بات سنتی ہوں، کبھی کبھی لوگ میری اس ادا کو پسند نہیں کرتے مگر میں امتحان میں شکست قبول کرنے کی بجائے اس کو دوبارہ دینا فعال سمجھتی ہوں۔ اب تو ڈاکٹر محمد رحمان نے ایک منی لیکچر دیبا شروع کیا ”صوابی خیبرپختونخوا کاگنجان آبادضلع ہے۔

اس کے شمال میں مردان، مشرق میں ہری پور، مغرب میں نوشہرہ اور جنوبی حصہ میں دریائے سندھ کے ذریعے یہ پنجاب سے ملحق ہے۔ پختونوں کی بہادرقوم یوسفزئی قوم کے بڑے بڑے سرداریہیں پیداہوئے۔ جن میں گجوخان، ملک احمدخان اور ملک شاہ منسور شامل ہیں۔ یہ ضلع ابتدا میں پشاور اوربعدمیں ضلع مردان کاحصہ رہا۔ پھر 1986 ء میں الگ ضلع بن گیا۔ اس میں تین یونورسٹیاں ہیں جس سے اس کی تعلیمی حالتکا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس یونیورسٹی آف صوابی کاسنگ بنیاد 27 نومبر 2012 ء میں اے این پی دور میں وزیراعلی ’امیرحیدرخان ہوتی نے رکھا۔

اس یونیورسٹی کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ اسلام آبادپشاورموٹروے پر صوابی انٹر چینج کے سنگم پرواقع ہے۔ اس کی پہلی وائس چانسلر ڈاکٹرنورجہاں تھی۔ موجودہ وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹرامتیازعلی خان نے 2017 ء میں چارج لیا۔ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہیں۔ امتیازعلی خان اس یونیورسٹی کوبہت آگے لے گئے۔ اب تک ان کی سربراہی میں اس یونیورسٹی میں 15 نئے تدریسی شعبے قائم ہوچکے ہیں اور مزید شعبوں کے حوالے سے بھی کام جاری ہے۔

یونیورسٹی کا نیا کیمپس بھی اسی وائس چانسلر کا کارنامہ ہے۔ ”میں ان کی اس گفتگو کو سن رہی تھی مگر ان کچے پکے مکانوں اونچی نیچی سڑکوں اور ٹیلہ نما چوراہوں میں سکندر اعظم کو گھومتے دیکھ رہی تھی، جب وہ اس علاقے ہنڈ سے گزر کر ایشیا گیا اور راجہ پورس کو شکست دی۔ اس کے بعد یہاں پر محمود غزنوی آیا، اور اس نے اس پر قبضہ کر لیا۔ لاہور کی گلیوں میں بچے کمُ کم نظر آرہے تھے مکانوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی بے شمار محلے کی مساجد تھیں۔

ایک قدرے بڑے مگر کچے گھر کی طرف اشارہ کر کے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یہ اس علاقے کا امیر ترین شخص ہے مگر یہ بھی باقی تمام لوگوں کی طرح ہی ملُ جل کر رہتا ہے۔ وہ کہنے لگے لاہور آج کل ایک تحصیل بھی ہے اور یہ علاقہ سنسکرت زبان کی گرائمر بنانے والے شخص پا نینی کی جائے پیدائش بھی ہے۔ اس لاہور کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ اس کے تمام آثار اور نواردات ہنڈ کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔

بات آگے مزید بڑھتی میرے دل میں یہ ہی خیال آیا کہ آج کے سکندر اعظم اور پانیینی کوئی اور نہیں آپ ہیں۔

جنھوں نے اردو کے شعبے کے قیام کے لئے اس یونیورسٹی میں دن رات محنت کی اور اس کو بنانے میں کامیاب ہوئے اور یوں یہاں پر آج 18 فروری 2019 کو پہلا اردو کا جشن بہاراں مشاعرہ کروایا۔

کھانے کے بعد یونیورسٹی کی مختلف پروفیسروں سے ان کے ہوسٹل میں تفصیلی ملاقات ہوئی اور پاکستان کے اس علاقے کی عورت جو صرف اپنے رہن سہن اور پہناووں کے علاوہ اپنے نظام فکر میں بھی دنیا کی باقی خواتین کے برابر نہیں آگے ہیں۔

اگلے روز مشاعرے کے لئے یونیورسٹی کا ہال لوگوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا اور مقررہ وقت کے مطابق کسی دیر سے آنے والے کا انتظار کیے بغیر مشاعرہ شروع ہوگیا۔ عباس تابش، ناصر علی سید، کلثوم زیب، شاہد رضا، ڈاکٹر سہیل احمد، جاوید احمد شفیق، ڈاکٹر نذیر تبسم، ڈاکٹر سبحان ڈاکٹر واجد علی، ڈاکٹر محمد رحمان نے خوب داد سمیٹی، مگر اس وقت اہلیان لاہورُنے مجھ سے بے پناہ محبت کا ثبوت پیش کر دیا جب میں اپنا کلام پڑھ کر جانے لگی تو پورے ہال نے کھڑے ہو دو منٹ تک تالیاں بجا ثابت کر دیا کہ چشم بینا کی گرد کو صاف کرنے کے لئے کوی فارمولا نہیں اس کی رحمت اور فضل چاہیے

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).