کشمیر میں آزادی کی جدوجہد جاری ہے، شریعت یا داعش کی نہیں


برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ انڈین فوج نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سب سے مطلوب ’قرار دیے جانے والے شدت پسند ذاکر بٹ عرف ذاکر موسی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ انڈین فوج کے مطابق انھیں کشمیر کے ضلع ترال کے ایک گھر میں محصور کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ انڈین فوج کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن دادسر ختم ہو گیا ہے جس میں ہلاک ہونے والے شدت پسند کی شناخت ذاکر موسی کے نام سے ہوئی ہے اور مکان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ذاکر موسی اپنے ایک ساتھی سمیت ترال کے ڈاڈ سرہ علاقے میں واقع ایک دو منزلہ مکان میں چھپے ہوئے تھے اور سکیورٹی فورسز نے جمعرات کو مکان کا محاصرہ کر لیا تھا۔ جمعرات کو جب ذاکر موسی کی ہلاکت کی خبر پھیلی تو کشمیر میں حالات کشیدہ ہو گئے۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کو ملتوی کر دیا گیا۔ علاقے میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی ہے جبکہ علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد سری نگر کو انڈیا سے جوڑنے والی واحد سڑک پر جمع ہو کر مظاہرے کیے اور پولیس پر پتھرا کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران موسی موسی، ذاکر موسی کے نعرے لگتے رہے۔

26 سالہ ذاکر حکومت ہند کے مرکزی نظام تعلیم کے تحت چلنے والے جواہر نوودیا ودھیالیہ کے طالب علم تھے۔ ان کے ایک ہم جماعت نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جے این وی کے قوم پرست نصاب سے چڑتے تھے اور وہ آٹھویں جماعت میں ہی وہاں سے نکل کر مقامی نظام تعلیم کے تحت چلنے والے سکول میں گئے اور بعد میں پنچاب کے ایک پیشہ ورانہ کالج میں سول انجینیئرنگ کی ڈگری میں داخلہ لیا۔ بعدازاں وہ ڈگری ادھوری چھوڑ کر واپس کشمیر آئے اور روپوش ہوکر حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان وانی کے ساتھی بن گئے۔

تاہم برہان وانی اور پاکستان میں مقیم حزب المجاہدین کے سربراہ صلاح الدین کے ساتھ اختلاف کے بعد وہ حزب سے علیحدہ ہو گئے اور بعد ازاں ’انصار غزوہ الہند‘ نام سے تنظیم کی کمان سنبھال لی۔ یہ واضح نہیں کہ وادی میں ذاکر موسی کے بعد انصار غزوہ الہند کے کتنے جنگجو باقی بچے ہیں کیونکہ گذشتہ برسوں میں ان کے کئی ساتھی مارے جا چکے ہیں۔

جولائی 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کمانڈر ذاکر بٹ عرف ذاکر موسی نے کئی ویڈیو پیغامات جاری کیے جن میں انھوں نے کشمیر میں جاری عسکری تحریک کے عالمی اہداف اور وادی میں نفاذ شریعت کا ایجنڈا بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ ”کشمیر میں جانوں کی قربانی کسی بیرونی ملک کے تزویراتی مفادات کی خاطر نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اللہ کے قانون کے نفاذ کی خاطر دی جا رہی ہیں۔ “

’ بی بی سی‘ کے مطابق یہ وہ دور تھا جب مشرق وسطیِ میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کا طوطی بول رہا تھا اور ذاکر موسی کو بھی داعش کی علامت سمجھا جانے لگا۔ تاہم انھوں نے جلد ہی اس کی تردید کر دی اور واضح کیا کہ وہ کشمیر میں جہاد محض نفاذ شریعت کے لیے کر رہے ہِیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کی مسلح تحریک میں پاکستان کی مداخلت یا سرپرستی کو قبول نہیں کرتے۔ اس پر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم کئی عسکری جماعتوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین نے باقاعدہ ویڈیو پیغام میں اعلان کیا کہ ”ہمارے کچھ دوست دانستہ یا نادانستہ دشمن کے ہاتھ میں کھیل کر قوم و قیادت کی نظریاتی یکسوئی میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔ “

کشمیر میں اس معاملے کو ایسا حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے کہ اس پر کوئی بات نہیں کرتا، بات ہو بھی تو اشاروں، کنایوں میں۔ میری رائے میں یہی موقع ہے کہ اس معاملے کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر بات کی جائے۔ سوشل میڈیا پہ بھی اس موضوع پر محدود طور پر بات ہوئی ہے اور مختلف لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ انگلینڈ میں مقیم انسانی حقوق کے موضوع پر اقوام متحدہ میں شامل معروف شخصیت ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے سب سے پہلے اس موضوع پر ”اہل کشمیر، قیادت، جنگجوں اور ہمدردوں کے نام“ کے عنوان سے کہا کہ

”بھارت میں نریندر مودی کی کامیابی کے ماحول میں ترال کشمیر کے دادسر گاؤں کے ایک گھر میں، کشمیری نوجوان جنگجو ذاکر موسی اور اس کے ساتھی کا قتل کوئی حادثہ نہیں۔ آج کے دور میں وحی نازل نہیں ہوتی البتہ دنیا میں دستیاب ٹیکنالوجی اور ہندوستان کے 1990 کے بعد کشمیر میں موجود وسیع وعریض جاسوسی نظام کی نظر ریاست میں موجود ہر صحتمند نوجوان پر ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ ذاکر رشید بٹ کا قتل جمعرات 23 مئی 2019 کو ایک علامت کے لئے رکھا گیا تھا۔”

اس صورتحال کے تناظر میں اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کا مقصد کشمیر کی آزادی ہے، اس کوشریعت کے نفاذ کی جدوجہد سے تعبیر کرنا کشمیریوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کشمیری نوجوان آزادی کے مقصد سے قربانیاں دے رہے ہیں اور کشمیری نوجوانوں کی قربانیوں کا سلسلہ قبل از تقسیم برصغیر جاری ہے، 1990 کی دہائی سے کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد میں نمایاں اضافہ ہوا اور بڑی تعداد میں نوجوان تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ، سرگرم ہوئے اور انہوں نے اپنی شجاعت اور قربانیوں سے تحریک آزادی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔

کشمیریوں کی طویل، منصفانہ اور مبنی برحق جدوجہد آزادی کو شریعت کی نفاذ کی تحریک کے طور پر پیش کرنا تحریک آزادی کشمیر کی بنیادوں کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ اس کو کسی طور قبول یا تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ کشمیریوں کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے جو فریڈم فائٹر نوجوان ایسا سمجھتے ہیں، وہ دانستہ یا نادانستہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کشمیر کے دیرینہ دشمنوں کے ہاتھ ہی مضبوط نہیں کر رہے بلکہ ان کا کام آسان بھی کرنے میں معاون ہیں۔

یہ ذاکر موسی کی صوابدیدی تحریک نہیں ہے اور نہ ہی اس جیسی سوچ رکھنے والوں کو کوئی حق حاصل ہے کہ وہ عشروں سے جاری اور بالخصوص نوے کی دہائی سے شدت اختیار کی ہوئی تحریک آزادی کشمیر کو یوں ہائی جیک کریں کہ جس سے تحریک آزادی کشمیر کی بنیادوں پر ضرب لگتی ہو اور دشمنوں کا کام آسان ہو جائے۔ وڈیو میں میت کے ساتھ ساتھ داعش کے جھنڈے سے بہت غلط تاثر پیدا ہوتا ہے، اس وڈیو میں نعرے تو آپ نے بھی سنے ہوں گے کہ ”ہم کیا چاہتے آزادی“۔

یقین کیجئے ہم بھی مسلمان ہی ہیں، کافر نہیں ہیں، لیکن طالبان اور داعش کے مکتبہ فکر و عمل کو برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کشمیریوں کی نسل در نسل جاری و ساری تحریک آزادی کو سبو تاژ کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں اسلام کے نام پر ایک مخصوص سوچ و فکر کو حاوی کرنا نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے اور اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے مختلف رجحانات بھی میری نظر میں ہیں۔

سوشل میڈیا اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کے لئے مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے۔ جن کی ذمہ داریاں ہیں، وہ بری الذذمہ ہوتے ہوئے مخصوص الفاظ کو تول کر بولتے ہیں، جس سے ابہام ہی رہتا ہے اور سنگین نوعیت کی خرابیوں کا موجب بنتا ہے۔ ہمارا یہ علاقائی، خاندانی اور ذاتی مسئلہ ہے اس لئے تکلیف بھی ہوتی ہے اور خاموش بھی نہیں رہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).