انڈیا کی معیشت کو مودی کس طرح چلائیں گے؟


مودی

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے دوسری بار تاریخی جیت حاصل کی ہے۔

انڈیا کے بازار حصص اور روپے کی قدر میں اضافے نے اس خبر کا خیرمقدم کیا۔ بی جے پی کے لیے دوسری بار پارلیمان میں اکثریت مودی کو اپنے وعدوں کو حقیقت میں بدلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

ایک بار جب ان کی جیت کے جشن کا غبار بیٹھے گا ان کے سامنے بعض سخت معاشی چیلنجز ہوں گے۔

انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں کیا کیا؟

مودی کے پہلے دور کا معاشی ریکارڈ ملا جلا ہے۔ انھوں نے نئے دیوالیہ پن جیسے بعض جرت مندانہ اصلاحات کی ابتدا کی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے خراب قرضوں سے نمٹا جا سکے جو کہ بینکنگ کے شعبے پر دباؤ ڈال رہے تھے۔

ان کی حکومت نے لال فیتہ شاہی کو کم کیا ہے اور ورلڈ بینک کی سنہ 2019 کی بزنس کرنے کی درجہ بندی میں انڈیا کی پوزیشن 77 ویں نمبر تک آئی ہے جو کہ سنہ 2014 میں 134 ویں تھی جب انھوں نے پہلی بار عہدہ سنبھالا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ملازمتوں کے اعداد و شمار مودی کے لیے ایک اور مشکل

مودی کا انقلاب جو نظر نہیں آتا

کیا بھارت کی معیشت زوال پذیر ہے؟

ان کے پہلے دور میں انڈیا دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت بھی بنا۔

انڈیا

دارالحکومت دہلی کی ایک سڑک

لیکن بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے تین چوتھائی سے زیادہ کرنسی نوٹ پر پابندی لگانے کی ان کی سب سے بڑی بازی الٹی پڑ گئی اور اس نے معیشت کی ترقی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا۔ بروقت متبادل نئے نوٹ کی کمی نے انڈیا کی غیر رسمی معیشت کو مفلوج کر دیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی ملازمتیں جانے لگیں۔

نئے قومی سیلز ٹیکس کا نفاذ بھی ٹھیک طور پر نہیں ہو سکا۔ نئے ٹیکس کے دور رس اثرات معاشی ترقی کو قوت فراہم کریں گے اگر مختلف قسم کے پیچیدہ ٹیکس کے نظام ایک قسم کے ٹیکس کے نظام میں بدل دیے جائیں۔ لیکن وقتی طور پر اس میں شامل پریشانیوں نے لاکھوں چھوٹے اور درمیانی سطح کے کاروبار کو شدید طور پر نقصان پہنچایا ہے۔

ان کے دوسرے دور سے کیا امید رکھنی چاہیے؟

اب جبکہ مودی دوسرے دور کے لیے اپنے دفتر میں قدم رکھنے والے ہیں تو سرجیت بھلا جیسے ماہر معاشیات کا خیال ہے کہ مودی کو ان کی بڑھی ہوئی اکثریت مزید سخت فیصلے لینے کی آزادی دے گی۔

ملازمت

وزیر اعظم مودی کے معاشی مشیروں کی کونسل میں کام کرنے والے مسٹر بھلا نے کہا: ‘جس قسم کا بڑا مینڈیٹ ملا ہے اس کے تناظر میں ہم آئندہ پانچ سالوں میں مزید جرات مندانہ اصلاحات کی امید کر سکتے ہیں۔’

بہرحال انڈیا میں مسائل کی جو سطح ہے وہ ان کے مینڈیٹ کی برابری کرتا ہے۔

دسمبر سنہ 2018 کی سہ ماہی میں معاشی ترقی کی شرح سست روی کا شکار ہو کر 6.6 فیصد رہ گئی جو کہ اس سے قبل کی چھ سہ ماہیوں میں سب سے کم ترقی کی شرح تھی۔

حکومت کی منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2016 سے 2017 کے درمیان بے روزگاری گذشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔

وہ ملازمت کے لیے کیا کریں گے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ مودی کو انحطاط پزیر پرائیوٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملازمتیں پیدا ہوں۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے کی بڑی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے اہم ترین ‘میک ان انڈیا’ پروگرام کا نتیجہ بھی مخلوط رہا ہے۔

میک ان انڈیا

ممبئی کی کمپنی آدتیہ برلا گروپ کے ماہر معاشیات اجیت راناڈے کا خیال ہے کہ بیرون ممالک کے بازار پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

برآمدات اور مینوفیکچرنگ یا پیداوار ایک دوسرے سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘جب تک کہ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا پیداوار کے شعبے کی ترقی نہیں ہوگی۔’

ان کا مزید کہنا ہے کہ نئی حکومت کو مزدور پر مبنی تعمیراتی، سیاحتی، ٹیکسٹائل اور زراعتی پیداوار جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا مودی ترقی کو طاقت فراہم کر سکتے ہیں؟

چین کے برخلاف انڈیا کی معاشی ترقی گذشتہ 15 سالوں کے دوران گھریلو صارفین کی مرہون منت ہے۔ لیکن گذشتہ چند مہینوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صارفین میں خرچ کرنے کا رجحان کم ہوا ہے۔

کاروں اور ایس یو وی کی فروخت گذشتہ سات سال میں سب سے کم سطح پر ہے۔ ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور سکوٹر کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔ بینک سے قرض کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان یونی لیور کمپنی نے حالیہ سہ ماہی میں کم آمدن دکھائی ہے۔ یہ تمام چیزیں صارفین کی قوت خرید کا اشاریہ ہیں۔

موٹر سائیکل

مودی کی پارٹی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ وہ انکم ٹیکس میں کمی لائے گی تاکہ متوسط گھرانے کے ہاتھوں میں زیادہ پیسہ ہو اور ان کی قوت خرید زیادہ رہے۔

بہرحال حکومت کی موجودہ مالی صورت حال کے پیش نظر یہ فوری طور پر ممکن نہیں۔ انڈیا کے بجٹ میں 3.4 فیصد کا خسارہ یعنی حکومت کی آمدن اور خرچ کے درمیان فرق مودی کے آپشنز کو محدود کرتے ہیں۔

مسٹر راناڈے کا کہنا ہے کہ ‘بڑھتا ہوا مالی خسارہ دھیمے زہر کی طرح کام کر رہا ہے۔’ ان کا خیال ہے کہ اس سے درمیان اور طویل مدتی ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔

کیا وہ کسانوں کی مدد کریں گے؟

مودی کے لیے ان کے پہلے دور میں زراعتی بحران مستقل چیلنج رہا تھا۔ ملک گیر سطح پر کسانوں نے سڑکوں پر مظاہرہ کیا کہ ان کی فصلوں کی قیمت میں اضافہ کیا جائے۔

چھوٹی سطح پر کام کرنے والے کسانوں کو زیادہ تعاون کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن حکومت ہند کی ایک سابق معاشی مشیر الا پٹنایک کا کہنا ہے کہ بازار جس طرح سے کام کرتا ہے اس کے ڈھانچے میں تبدیلی زیادہ مناسب طریقہ ہوگا لیکن اس سے حکومت کے پہلے سے دباؤ کا شکار بجٹ پر اضافی دباؤ پڑے گا۔

کسان

انڈیا میں کسانوں کا مظاہرہ

وہ اس نظام کا خاتمہ دیکھنا چاہتی ہیں جس میں کسانوں کو اپنی پیداوار حکومتی ایجنسیوں کو طے شدہ قیمت پر فروخت کرنی ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہمیں کسانوں کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جس کے ہاتھ چاہیں اپنی پیداوار فروخت کریں۔ اس سے انھیں زیادہ قیمت والی پیداوار کو پیدا کرنے کا حوصلہ ملے گا۔’

کیا مودی پرائیوٹائزیشن کو فروغ دیں گے؟

ان کے انتخابی وعدوں کی شہ سرخیوں میں سے ایک 1.44 کھرب امریکی ڈالر سڑک، ریل اور دوسرے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں خرچ کرنا ہے۔ لیکن آنکھوں میں چمک لانے والی یہ خطیر رقم کہیں نہ کہیں سے آنی ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اس میں نج کاری اہم کردار ادا کرے گا۔

اپنے پہلے دور میں مودی کو حکومتی کمپنیوں کو فروخت کرنے کے اپنے عہد کے حصول میں کم کامیابی ملی۔ حکومت نے قومی ایئر لائنز ایئر انڈیا کا زیادہ تر حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن صارفین کی جانب سے کوئی گرمجوشی نہ ملنے کی صورت میں منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔

مسٹر بھلا کا خیال ہے کہ مودی اپنے دوسرے دور میں مزید جارحانہ انداز میں پرائویٹائزیشن کی راہ پر چلیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘آئندہ دو سال حکومت کے لیے پرائویٹائزیشن کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے اچھا ہے۔’

ان کا خیال ہے کہ بولڈ پالیسیوں کو گلے لگانے کی ان کی خواہش سے بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنے پیسے انڈیا میں لگانے کا حوصلہ مل سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اپنے پہلے دور میں مودی نے سخت اصلاحات کرنے کی اپنی بھوک دکھائی ہے اور وہ یقینی طور پر اپنے دوسرے دور میں اس سے بڑے خطرات لینے کے لیے تیار ہوں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp