کیا لڑکیاں اب ریاست سے بھی اپنی عزت بچائیں گی؟


عام آدمی کے لئے ریاست کا نمائندہ کون ہوتا ہے؟ اس کا انتظامی افسر۔ جب عام آدمی کو ریاست سے وہ تحفظ چاہیے ہوتا ہے جس کے وعدے پر ریاست قائم ہوئی ہے تو سب سے پہلے اسے پولیس دکھائی دیتی ہے۔ کوئی اس سے جان و مال چھیننے کی کوشش کرے تو وہ ریاست سے یہ توقع کرتا ہے کہ اسے پولیس کے ذریعے ریاست تحفظ دے گی۔ لیکن اگر پولیس ہی اس کی جان کی دشمن بن جائے تو پھر کیا ہو گا؟ اس سے بھی بڑھ کر اگر پولیس ایک جوان جوڑے کو جاتا دیکھے اور اسلحے کے زور پر لڑکی کو اغوا کر کے ریاست کی سرکاری گاڑی میں اس کا کئی گھنٹے تک گینگ ریپ کرے تو یہ عزت لڑکی کی لٹی ہے یا ریاست کی اپنی؟ کیا لڑکیاں اب ریاست سے بھی اپنی عزت بچائیں گی؟

سینئیر صحافی شکیل انجم کی خبر کے مطابق ”محافظ فورس کے تین کانسٹیبلز نے 16 مئی کو 2 بجے کے قریب 22 سالہ لڑکی کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب سے اغوا کیا اور اس کا پولیس کی سرکاری گاڑی میں گینگ ریپ کیا اور دو گھنٹے بعد 4 بجے اسے اس کے ہوسٹل جو کمرشل سنٹر سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع ہے پر چھوڑ دیا“۔ ”انہوں نے اس لڑکی کو مستقبل میں رابطے میں رہنے کو کہا اور ایک موبائل نمبر بھی دیا اور ایسا نہ کرنے پر سنگین دھمکیاں بھی دیں۔ “

لڑکی نے حوصلہ کر کے ایف آئی آر درج کروا دی۔ راولپنڈی پولیس کے ترجمان سہیل ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون کی شکایت ملنے کے بعد ان کا طبی معائنہ کروایا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

اس کے بعد کیا ہو رہا ہے؟ بی بی سی کی خبر کے مطابق لڑکی کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ”ملزمان نے خاندان پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا ہوا ہے۔ وہ دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میڈیا میں دو چار دن خبریں چلیں گی پھر اس کے بعد کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ “ مذکورہ رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پیسے لے کر مقدمہ واپس لے لیں۔

کیا ریاست کی نظر میں ہر پاکستانی لڑکی اب ایک ایسی طوائف قرار پائی ہے جس سے زبردستی سیکس کرنے کے بعد اسے پیسے دے کر چپ کروا دیا جائے؟ مہذب ملکوں میں تو طوائف سے بھی زبردستی سیکس کرنے پر ریپ کا مقدمہ قائم ہوتا ہے، اور ادھر یہ حال ہے کہ ایک شریف لڑکی کی عزت لوٹ کر سرکاری اہلکار اسے پیسے دے رہے ہیں۔ بہرحال یہ بھی ان کی مہربانی ہے، ورنہ ایف آئی آر کے مطابق تو انہوں نے لڑکی کا ریپ کرنے کے بعد اس سے رقم اور زیورات بھی لوٹ لئے تھے۔

اب ہو گا کیا؟ ہماری رائے میں تو صلح ہو جائے گی۔ وہ پولیس والے درست کہتے ہیں کہ چند دن میڈیا پر خبریں چلیں گی اور پھر کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو ساہیوال کے سانحے کو یاد کر لیں۔ آپ پولیس کے ہاتھوں ایک راہ چلتی لڑکی کے ریپ کو ساہیوال واقعے سے بھی زیادہ سنگین سمجھتے ہیں تو پھر بھی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔

شکیل انجم کی خبر کے مطابق ”اس سے قبل 22 مئی 2005 کو 15 سالہ لڑکی کو اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے اور 17 سالہ لڑکی کو سیالکوٹ کے پولیس اہلکاروں نے ریپ کیاتھا، اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے واقعہ کی اعلی سطحی انکوائری کا حکم دیا تھا، یہ معلوم ہوا ہے کہ ملزمان کو قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں تھیں تاہم ایک کیس میں پولیس نے ایک معاہدے کے تحت معاملہ حل کروا لیا تھا“۔

حالیہ واقعے میں دو عزتیں لٹی ہیں۔ ایک تو لڑکی کی، دوسری ریاست کی۔ ریاست کی سرکاری وردی میں ملبوس اہلکاروں نے ریاست کے فراہم کردہ اسلحے کے زور پر لڑکی کو اغوا کیا اور ریاست کی فراہم کردہ کار میں کئی گھنٹے تک ریاست کا ریپ کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس سنگین مقدمے میں صلح کی گنجائش کیسے پیدا ہو گئی ہے؟ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو صلح کیسی؟ سنگین جرم ہے تو سنگین سزا کیوں نہیں؟ اس معاملے میں تو عام جرم سے کہیں زیادہ سخت سزا ہونی چاہیے کیونکہ ریاست کے نام پر یہ ریپ کیا گیا ہے۔

مسقط میں ایک دوست بہت عرصہ رہے ہیں۔ وہ ایک قصہ سناتے ہیں کہ ایک خاتون ٹیکسی میں ائرپورٹ سے اپنی رہائش پر جا رہی تھیں کہ ٹیکسی ڈرائیور نے ان کا ریپ کر دیا۔ پکڑا گیا۔ قاضی نے اسے دو سزائیں سنائیں۔ ایک تو ریپ کی۔ دوسرے اس سزا کو یہ کہہ کر دگنا کر دیا کہ ٹیکسی میں یہ خاتون اس کی امانت تھی اور اس نے امانت میں خیانت کی ہے۔

کیا ان پولیس والوں نے ریاست کی امانت میں خیانت نہیں کی؟ کیا انہیں سخت ترین سزا نہیں سنائی جانی چاہیے بجائے اس کے کہ وہ ناقابل ضمانت جرم میں اندر ہو کر بھی اس قدر با اثر ہیں کہ متاثرہ خاندان کو گن پوائنٹ پر صلح کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ اس کیس کو قصور کے زینب کیس سے بھی زیادہ بڑی مثال بنا کر ایک ڈیڑھ مہینے میں فیصلہ سنایا جانا چاہیے اور کسی قسم کی صلح کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

بہرحال ریاست روتی پیٹتی رہے کہ اس کی رٹ برقرار نہیں رہی ہے۔ پچھلے دنوں ایک بڑے سے افسر سے چھوٹی سی ملاقات ہوئی تھی۔ شکوہ کناں تھے کہ ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ بازار میں خوانچے والے سے لے کر ارب پتی تاجروں تک اس کی کوئی عزت کرتا ہے اور نہ اس کے احکامات کی پروا کرتا ہے۔ کوئی افسر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرے تو عوامی نمائندے یا عوامی احتجاج اسے ہٹا دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ریاست اپنے فرض شناس افسروں کی پشت پر پوری طاقت سے کھڑی نہیں ہو گی اور اپنے قانون شکن اہلکاروں کی پوری شدت سے سرکوبی نہیں کرے گی تو کہاں کی رٹ اور کیسی رٹ؟ جب ریاست یوں اپنی عزت لٹواتی رہے گی تو ریاست کی عزت بچے گی ہی کہاں کہ کی جائے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar