آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر اور صحافی کا خوف


آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز اسلام آباد سے فون تھا، ”کیا آپ آ سکتے ہیں؟ ہمارے افسر آپ سے ملنا چاہتے ہیں؟ ، “ یہ غالبا اپریل 1998 کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور خوف بھی تھا۔ جواں عمری کے ساتھ صحافت میں بھی نووارد تھا۔ 1992ء میں صحافت شروع کرنے کے بعد میں نے ایسی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ کیسے انٹلی جنس والے اسلام آباد شہر کے صحافیوں کی خاطر داری کرتے ہیں۔ صحافی ہوکر اگر آپ اس طرف نہیں جس طرف انٹلی جنس ہے تو پھر تشدد، ہراساں کیا جانا اور بدسلوکی آپ کی منتظر ہوسکتی ہے۔

سوال پوچھے جانے کے اگلے لمحے میں یہ سب میرے ذہن کے پردے پر ایک فلم کی طرح چل رہا تھا۔ مجھے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر بلانے کی کیا وجہ ہے، ذہن میں جاری اسی ادھیڑ بن میں بڑابڑانے کے انداز میں، میں نے جب کہا کہ ”کیوں؟ ۔ “ پریشان نہ ہوں ہمارا افسر آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے، ”دوسری جانب سے میرے سوال پر جواب دیا گیا۔

کچھ روزقبل ہی پاکستان نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل غوری اول کا تجربہ کیا تھا۔ دفاعی تجزیہ نگار کے طورپر میں مقامی اخبار کے لئے کام کررہا تھا۔ میں نے اس میزائل تجربہ کی خبر دی تھی جو میرے نام سے جلی سرخی کے ساتھ صفحہ اول پر نمایاں طورپر شائع ہوئی تھی۔ میرے دوست سکیورٹی اور فوجی امور کے لئے میری پیشہ وارنہ لگن اور شوق سے بخوبی آگاہ تھے۔ میں نے شائع ہونے والی اپنی خبر کا خوب لطف اٹھایا۔ پاکستان کے تمام اخبارات نے میزائل تجربہ کی خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی۔

میری خبر میں کچھ اضافی اجزاء بھی شامل تھے جو دیگر اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں موجود نہیں تھے۔ اپنی خبر میں، میں نے امریکی انٹیلی جنس کے اندازے کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق پاکستانی بیلسٹک میزائل غوری درحقیقت شاملی کوریا کے ’روڈونگ میزائل۔ اول‘ کی نقل ہے۔ پاکستان میں اس وقت تک انٹرنیٹ کا انقلاب تھا اور نہ ہی پاکستانی معاشرہ ابھی اس لذت سے آشنا ہوا تھا۔ اطلاعات کا طوفان ہمارے قیدی ذہنوں تک نہیں پہنچا تھا کہ اسلام آباد کے دروازے ابھی اس پر بند تھے۔

مجھے کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آکر مجھے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرزسے کیوں بلاوا آیا ہے؟ اسی پریشانی میں اگلے دن صبح نو بجے میں آئی ایس آئی عمارت کے دروازے پر تھا۔ مجھے ایک چھوٹے کمرے میں لے جایا گیا جہاں دو آرام دہ صوفے رکھے تھے۔ مجھے کہا گیا کہ ’آپ یہیں انتظار کریں‘ ۔ جلد ہی ایک لمبا چست بدن لیکن گنجا سینئر افسر (اپنی سکیورٹی کی وجہ سے دانستہ میں ان کا نام تحریر نہیں کررہا) ہاتھ میں فائل کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔

وقت ضائع کیے بغیر وہ مدعے کی بات پر آگئے۔ فائل کھول کر مجھے تھماتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’پڑھیں‘ ۔ فائل میں غوری میزائل کے تجربے والی میری خبر کا تراشہ موجود تھا۔ اس کے کچھ نکات پیلی سیاہی سے نمایاں کیے گئے تھے جو امریکی انٹیلی جنس کی غوری میزائل کے درحقیقت ’روڈونگ میزائل‘ ہونے اور پاکستانیوں کے اس پر مقامی فوجی رنگ کرنے سے متعلق تھے۔

کڑک آئی ایس آئی افسر کے چہرے کے تاثرات عکاس تھے کہ مجھے بلاوجہ دعوت نہیں ملی۔ مذاق کی ہرگز بات نہیں۔ ”آپ کو یہ کیسے پتہ چلا؟ “ سپاٹ آواز میں سوال ہوا جس میں غصے یا خوشی کی ذرہ بھربھی آمیزش نہ تھی۔ دلچسپی صرف جواب سے تھی۔ ملاقات کا یہ سب سے خوفزدہ کردینے والا لمحہ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی، پسینہ بھی آ رہا تھا۔ لمحے بھر میں خاطرجمع کرتے ہوئے میں نے جواب دیا ”یہ عوامی سطح پر دستیاب ذرائع سے حاصل کردہ معلومات ہیں اور پاکستانی میزائل کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کا یہ حوالہ واشنگٹن میں قائم متعدد امریکی تھنک ٹیکنس کی شائع شدہ رپورٹس میں دیا گیا ہے۔ “

سیدھا جواب اور کام کی بات والا معاملہ تھا۔ پندرہ منٹ سے کم وقت تک یہ گفتگو جاری رہی۔ میری انگریزی کی تعریف کے علاوہ افسر نے میرے کام کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہ کیا۔ ملاقات کے اختتام پر مجھ پر خوف کی وہی کیفیت طاری تھی جو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں داخل ہوتے وقت تھی۔ افسر نے اپنی گفتگو میں صرف ایک بار ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کا حوالہ معمول کے انداز میں دیا۔ اس روز میں نے یہ سیکھا کہ طاقتور لوگ منہ سے کوئی لفظ کہے بغیر کیسے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔

وقت تیزی سے گزر گیا۔ پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے محروم کردیا۔ مشرف نے اپنا جدت پسندی کا تاثر ابھارنا شروع کیا اور پاکستانی معاشرے کے مغرب زدہ متوسط شہری طبقات کے لئے خود کو ہیرو کے طورپر پیش کرنے لگے۔ ’ہیروازم‘ جب کسی کے ذہن میں سما جائے تو وہ بزعم خود تاریخ کا ایک فیصلہ کن کردار تصور کرنے لگتا ہے۔ یہ بھی بجا ہے کہ ’ہیروز‘ پھر اکثر اپنی سوانح عمری بھی لکھتے ہیں۔ مشرف نے بھی ایسا ہی کیا جو 2006 ء میں منظر عام پرانگریزی میں ’ان دی لائن آف فائر‘ اور اردو میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔

میں نے ایک دن میں یہ کتاب پڑھ ڈالی۔ اس میں کوئی زیادہ جان نہیں تھی۔ جوہری عدم پھیلاؤ کا باب میری فوری توجہ کا باعث بنا جس نے اپریل 1998ء میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں ہونے والی ملاقات کی یاد تازہ کر دی۔ مشرف کے ’انکشاف‘ نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنے کے علاوہ صحافتی زندگی میں خوفزدہ کردینے والے تجربے کو بھی پھر سے تازہ کر دیا۔

مشرف کی کتاب کے صفحہ 286 پر تحریر ہے ” ( 1999 ءمیں ) فوری طورپر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں مشکوک سرگرمیوں کی ابتدائی علامات میرے سامنے آئیں۔ پاکستان نے نقد رقم کے بدلے روایتی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی منتقلی سمیت خریدنے کے لئے حکومت سے حکومت کی سطح پر شمالی کوریا سے ڈیل کی تھی“۔ سادہ الفاظ میں پاکستان کا ریاستی سربراہ (مشرف ڈی فیکٹو ریاستی سربراہ تھا اگرچہ وہ غیرقانونی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدارپر قابض ہوا تھا) اعتراف کررہا تھا کہ پاکستانی حکومت نے روڈونگ اول میزائل نارتھ کوریا سے خریدے اور اس پر مقامی فوجی رنگ کر دیا۔

کم ازکم میری حد تک یہ انکشاف ستم ظریفی سے کم نہیں تھا۔ اسلام آباد میں کام کرنے والا میں واحد صحافی نہیں تھا جس نے پاکستانی میزائل پروگرام پر پیش رفت سے متعلق خبریں دی تھیں جو 1990 کے اواخر میں آئی ایس آئی افسران کے ہاتھوں خوف کا نشانہ بنا۔ مشرف کی کتاب کے مطالعے کے بعد میں نے کھل کر اپنے صحافی ساتھیوں سے ریاستی مشینری کے دوہرے معیار کی نشاندہی کرنا شروع کی۔ یعنی اپریل 1998ء میں میری خبر میں جو منکشف کیا گیا تھا، 2006 ءمیں مشرف کی کتاب میں کہی گئی بات میں کوئی فرق نہ تھا۔

یقینا بنیادی اطلاع ایک ہی تھی کہ پاکستانی غوری شمالی کوریا کے روڈونگ میزائل اول کی نقل ہے۔ کسی نے مشرف پر الزام نہیں لگایا کہ اس نے ریاستی راز منکشف کیا جبکہ 1998 ءمیں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں اس خوف کی چادر میں لپٹی ملاقات کے بعد میرے صحافی ساتھیوں اور سینئر حکومتی افسران نے تسلسل کے ساتھ میرے ساتھ نامناسب رویہ روا رکھا۔ مجھے اس الزام کا سامنا رہا کہ میں قومی مفادات کے خلاف کام کررہا ہوں۔ مڈل کلاس صحافی کے طورپر اس پیشے کا بنیادی تقاضا ہے کہ میں عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھوں، ایسا کرنے والا صحافی تو ملک دشمن بن گیا لیکن وہی کام کرکے ایک فوجی حکمران قوم کا محافظ کہلایا۔

اپریل 1998 ءمیں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹز میں سینئر فوجی افسر سے یہ میرا کوئی واحد آمنا سامنا نہیں تھا جہاں مجھے نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ (کم ازکم 1990 کی دہائی میں) جو کوئی بھی فوجی امور پر خبریں دینے میں ’سمارٹ‘ بننے کی کوشش کرتا اور جو چہیتا اور اشرافیہ سے تعلق بھی نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے معاملہ کچھ الگ تھا۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ میری پیشہ وارانہ صحافتی زندگی کی یہ یادداشت 1990 ءسے تعلق رکھتی ہے۔ بری فوج کے سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت کا دور تھا۔ میرے ذرائع نے اطلاع دی کہ اعلی دفاعی اداروں میں فوج اصلاح کے لئے اصرار کررہی ہے خاص طورپر جوائنٹ چیفس آف سٹاک کمیٹی (جے سی ایس سی) کے ڈھانچے میں۔ اس وقت میں ایک ممتاز بین الاقوامی فوجی میگزین سے منسلک تھا۔ میری خبر صفحہ اول پر بطور ’لیڈ سٹوری‘ شائع ہوئی جس کی شہہ سرخی تھی ’جے سی ایس سی میں اصلاحات کا امکان۔ ‘

لندن میں میری یہ خبر شائع ہوئی تو مجھے جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹرز سے ایک سینئر فوجی افسر کا فون آیا۔ انہوں نے مجھے چائے پر مدعو کیا۔ ملاقات کے آغاز ہی پر ان کا مجھ سے پہلا سوال تھا ”کیا آپ کا تعلق فوجی گھرانے سے ہے؟ “ میرا فوری اور کھرا جواب ”نہیں“ تھا۔ یکایک ان کا لہجہ بدل گیا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے باقی ماندہ دلائل سننے سے ہی انکار کردیا جو میں لندن میں شائع ہونے والے فوجی میگزین میں اپنی خبر کی وضاحت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ ”اگر آپ ایک فوجی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تو پھر ایک عالمی فوجی میگزین کے لئے آپ کس طرح لکھ سکتے ہیں؟ “ انہوں نے پوری اہانت سے پوچھا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ان کے احساس برتری میں ڈوبے رویہ نے مجھے قائل کرلیا کہ اگر میرے پاس کوئی جواب تھا بھی تو اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

مجھے یقین ہے کہ آج فوجی امور پر رپورٹنگ کرنے والا کوئی فرد اس نوع کے واقعات سے شاید مانوس نہ ہو جیسا کہ اب بتایا جاتا ہے کہ فوجی افسران کے رویہ میں گزشتہ دس سے پندرہ سال میں بڑی حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ جو تجربہ میں نے بیان کیا ہے وہ 1990 کے پاکستان کے دور سے متعلق ہے۔ میں نے 2000 کے آغاز میں فوجی امور پر رپورٹنگ ترک کر دی تھی۔ لہذا یہ موازنہ اب مشکل ہے کہ فوج اور انٹیلی جنس افسران کا فوجی امور پر رپورٹس پر رویہ کتنا بدلا ہے؟

البتہ اخبارات اور نیوزچینلز پر فوجی اور سکیورٹی امور پر جو رپورٹس نظرآتی ہیں، انہیں دیکھ کر کہاجا سکتا ہے کہ زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ وہی ’سنگل سورس‘ خبریں فوجی امور پر پاکستانی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ رپورٹرز عموما ’نہ جائے ماندن پائے رفتن‘ کے مصداق اطلاعات وصول کرتے اور انہیں کسی تصدیق یا آزاد ماہرانہ تجزیہ کے بغیر ایک خبر کی صورت پیش کردیتے ہیں۔

اکثر صحافی دفاع اور فوجی امور پر جانے بغیر ہی رپورٹنگ کرتے ہیں اور پاکستانی ملڑی کی گرینڈ پی آر سکیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ پیشہ وارانہ صحافتی کام نہیں کررہے ہوتے۔ پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ذیلی انٹلی جنس سروسز اپنے تشخص کے بارے میں بے حد محتاط رہتی ہیں۔ (کسی کی توہین مقصود نہیں لیکن) دلچسپ امر یہ ہے کہ صحافی جو فوجی امور پر لکھتے ان کا شہر میں ایک خاص قسم کا تعارف ہوتا ہے، فوجی حلقوں میں ان کی پزیرائی کا معیار امریکہ مخالف اور بھارت دشمن کے طورپر ہوتا ہے یا پھر فوجی حلقوں سے قربت کا دکھاوا کیا جاتا ہے۔

مجھے اس نکتہ نظر سے قطعاً اختلاف نہیں کہ مسلح افواج کا پاکستان جیسے معاشرے میں ایک خاص تاثر قائم کرنا ان کے ناگزیر مفاد میں ہے۔ میں اس نکتہ نظر کا قائل ہوں اور اتفاق کرتا ہوں۔ یہ فوج کے لئے یقینا ناگزیر ہے کہ وہ تنازعات کے مارے پاکستانی معاشرے میں اپنا ایک خاص تشخص برقرار رکھے خاص طورپر ایک ایسی صورتحال میں جہاں فوج معاشرے کے ایک طبقے کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کررہی ہو۔ ایسے میں یہ بالکل جائز ہے کہ فوج اپنے امور کار سے متعلق اطلاعات جاری کرے اور اپنے سے متعلق کوئی مخصوص تشخص قائم کرے لیکن مقصد اگر صرف یہی ایک ہے تو یہ آپریشن کے دائرے تک ہی محدود ہوں گی۔

دوسری جانب فوج کی بھرپور قوت سے میڈیا کی موجودگی اور انٹلی جنس سروسز کا اثر ونفوذ معاشرے میں دیکھتے ہیں جو بعض اوقات انہیں حکومت کے ساتھ تنازعہ کا شکار کردیتا ہے۔ بعض دیگر مواقع پر میڈیا بھی اس تنازعہ کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ گزشتہ چند سال دیکھیں تو صحافیوں کو دباؤ کا سامنا آج بھی ہے۔ آج بھی ہم ایک ایسی صورتحال میں رہ رہے ہیں جہاں فوجی ترجمان کا ٹویٹ نازک سیاسی صورتحال پر طاقتور فیصلہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ کتنے صحافی آئی ایس آئی ہیڈکوارٹز کی یاترا کرتے ہیں اور اسی خوف کی کیفیت سے اس دفتر سے باہر آتے ہیں جس سے میں اپریل 1998 ءکی ملاقات کے بعد گزرا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).