روحانیت بمقابلہ نحوست و آسیب!


روحانی و خلائی مخلوق سمیت ہر کوئی شدت سے منتظر تھا کہ 25 جولائی کو دشمن طاقتوں کو ووٹ کی قوت سے شکستِ فاش ہوگی اور ہر طرف برس ہا برس سے بنجر سر زمین پر تبدیلی کے سوتے پھوٹیں گے۔ پل بھر میں جنگل کا جنگل ہرا ہو جائے گا کیونکہ بنی گالہ کی روحانی طاقتوں کے علاوہ خلائی اور بالائی مخلوق بھی 2018 کو زائچہ دیکھ کر تبدیلی کا سال قرار دے چکی تھی۔ اصحاب غیب، رجالِ رشید اور تمام مافوق الفطرت طاقتیں بھی اپنے اپنے محاذ اور مورچے سنبھال چکے تھے۔

قلندروں نے ستاروں کی چال ڈھال دیکھ لی تھی اور نجومیوں و پنڈتوں نے زائچے کھینچ لیے تھے۔ غیبی طاقتیں اور قطب ابدال جنتر منتر پڑھنے میں مصروف ہوچکے تھے۔ بتانے والوں نے خوش خبری دی کہ ملکِ عزیز کے ستر سال کے دلدر دور ہونے میں بس ایک چلّہ حائل ہے۔ کرشمہ گروں اور بازی گروں نے کپتان کے حق میں دھٍڑا دھڑ فالیں نکالنا شروع کر دی تھیں۔ روحانی بابوں نے ایسے تعویزوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا تھا جو کالے جادو سمیت ہر طرح کے آسیب کا توڑ تھے۔

خشکیوں اور پانیوں پر متصرف سرکار نے تسبیحات اور دم درود کا سلسلہ شروع کردیا تھا جس کے زور پر پانچ ارب درخت، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر فوراً ہمارے قدموں میں بے وفا محبوب کی طرح گرنے والے تھے۔ سمندری تیل اور گیس کے ذخائر ایک مراقبے کی مار اور دوست ممالک سے اربوں ڈالرز کی امداد ایک رات کی مناجات کے فاصلے پر بتائی گئی تھی۔ ہمیں یہ بھی بشارت دی گئی کہ تجربہ کار عامل اور آہِ رسا کے حامل بزرگ جب اسمِ اعظم کا ورد کریں گے تو باہر پڑے دو سو ارب ڈالرز پلک جھپکنے میں ملک کے اندر آ جائیں گے۔ جادو کی چھڑی کے کمال سے سبز پاسپورٹ کی عزت بحال اور بیرون ملک سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پاکستان کا رخ کریں گے۔ روحانیت، طریقت، معرفت اور تصوف کی معجز نمائیوں کا ایسا دور دورہ ہو گا کہ عام علوم سائنس اور سائنسی علوم سپر سائنس میں ڈھل جائیں گے۔

مگر واہ ری قسمت! سب خواب چکنا چور ہو گئے۔ سب امیدیں دم توڑ گئیں۔ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سب ارمان خاک میں مل گئے۔ نئے پاکستان کے بانیوں نے جدید ریاستِ مدینہ کا جھانسا دے کر اس مفلوک الحال قوم کو کربلا میں لا کر بھوکا پیاسا مارنے کے لیے چھوڑ دیا۔ جسے ہم روحانی ترفع اور جادو کی چھڑی کا کمال سمجھتے رہے وہ تو نحوست اور آسیب کے سائے نکلے۔ جسے رجالِ کار کی کرشمہ سازیاں سمجھ بیٹھے تھے وہ تو جنّوں اور پریوں کے مکروہ اثرات تھے۔ جسے کرامتوں کی بہار گردانا وہ بھوت پریت اور جادو ٹونے کے مافوق الفطرت واقعات تھے۔ نئے پاکستان کے وجود پذیر ہوتے ہی حرکت تیز تر اور سفر نہایت آہستہ ہو گیا۔ بقول منیر نیازی

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اب اداسی چند گھروں کی دیواروں پر ہی نہیں بلکہ پورے ملک پر بال کھولے سو رہی ہے۔ شہر ہی سائیں سائیں نہیں کرتا بلکہ سارا نیا پاکستان ہی ہائے ہائے کر رہا ہے۔ خوف کی پچھل پائی چاروں اور خون خون پیاس پیاس پکارتی پھر رہی ہے اور بائیس کروڑ افتاد گانِ خاک اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ ارواحِ خبیثہ و ابدانِ شنیعیہ کا اندھا رقص ہے۔ ہر طرف خون کے چھینٹے بکھرے پڑے ہیں اور مظلوم عوام جادو کی چھڑی کو آسیب میں بدلتے ہوئے حسرت سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ بقول شاعر

ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
کون سا ورد کرائیں کہ بلائیں جائیں

دکھوں ماری قوم کو سمجھ نہیں آرہی کہ جو سلائی مشین دستِ معجز نما پر روحانیت کے کرشمے دکھا رہی ہے اس کا سایہ جب عوام پر پڑتا ہے تو وہ آسیب اور نحوست میں کیوں ڈھل جاتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).