بیدل کا تصور جہاں بینی


زندگی کو موضوعی اور معروضی سطح پر جاننا اور ان کو باہم آمیخت کر کے جدلیاتی حقیقت تک پہنچنا بہت ہمت وری کا کام ہے۔ اس کے لئے فن کی صلابت درکار ہے گو یا فن کار کا درجہ احسا س اورمرتبہ شعور اتنا بڑا ہو کہ وہ ہر جانب پھیلی کائنات کے تنوع اور رنگارنگی کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دکھائے یہ عرض ہنر کی انتہائی کٹھن منزل ہے جس میں آفاق اپنے جملہ پہلو کھولتے ہیں۔ فن کار خصوصا شاعر کا آفاقی احساس و شعور ان جہتوں کو کھولتا ہی نہیں اپنے اسلوب سے ان تہوں میں اضافہ بھی کرتا ہے۔

حقیقت، اصیل فن کار کے یہاں انکشاف کا کام کرتی ہے۔ زندگی کے بڑے تجربے کے بغیر اس کی جانچ ممکن ہی نہیں۔ اسلوب وتیرہ احساس کا نام ہے۔ اس میں نظریے کی خو بو، زبان کی اصالت سے باہم مربوط ہو کر متخیلہ کی جولانیاں دکھاتی ہے۔ یاد رہے کہ وسیع تصور جہاں بینی ہر سطح پر حقیقت کو پورے لباس میں دیکھتا اور دکھاتا ہے۔

بیدل کا اسلوب اتنا عظیم ہے کہ ان کے آفاقی تجزیے بجائے خود نئے افق مرتب کر تے ہیں۔ اشیا و مظاہر پر غور و خوض اور نکتہ آفرینی بیدل کے من جملہ کمالات میں سے ایک ہے۔ ان کے تصور جہاں بینی ( ( World outlookمیں حرکی جدلیات کار فرما ہے۔ وہ کائنات کو دوسرے شعرا کی طرح نہیں دیکھتے بلکہ اس کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے ایک متوازی مخاطبہ ترتیب دیتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی عمیق نظری مظاہر کی اصلی پرتیں کھول کے رکھ دیتی ہے۔ سو پڑھنے والے کے لیے ایک ایسا جہان شکل پذیر ہوتا ہے جس میں با آسانی رہا بسا جا سکے۔

بیدل کی بنا کردہ کائنات میں ملوک و امرا کے علاوہ ہر کوئی رہ سکتا ہے ان کے کردار وجودی سطح پر جیتے اور مکالمہ کرتے ہیں۔ اس مکالمے میں کچھ بھی حتمی نہیں حتی کہ سچائی کی ایکتا کو بھی مبارزت کا سامنا ہے۔ یہ وسیع المشرب انسانوں کی دنیا ہے جہاں کوئی قید نہیں، کوئی طعنہ زنی نہیں۔ اس میں سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں، لڑائی اور بھیڑ سے دور

در مشرب زن و از قید مذاہب بگریز

عافیت نیست در آن بزم کہ سازش جنگ است

بیدل کے اسلوب میں اتنی وسعت ہے کہ کچھ بھی ان کی فن کارانہ بساط سے با ہر نہیں، وہ کائنات کے رمز آشنا ہیں، اتنے قادر کہ اسے جیسے چاہیں ڈھال کر دکھا دیں۔ ان کی حقیقت نگاری اساطیر سے بہت دور ہے۔ بیدل کا ہمہ پہلو معاشرہ دیکھنے لائق ہے۔ فن پر ان کی ناقابل یقین گرفت تمام فارسی شعرا سے الگ بھی ہے اور ممتاز بھی۔ ان کی کائنات میں چکی پیسنے والے، کسان، مزدور اور درزی بھی رہتے ہیں۔ مزدور سب کے لئے کا م کرتا ہے، درزی کی سوئی سب کے کپڑے سیتی ہے، بھوکا کسان رزق اگاتا ہے اور چکی سب کے لئے آٹا پیستی ہے۔ لہذا یہ سب مل کر پیداواری رشتوں کا معاشرہ بناتے ہیں :

ہوش ا گر باشد کتاب و نسخہ ی درکار نیست

چشم وا کردن زمین و آسمان فہمیدن است

یہ دنیا ہماری دیکھی بھالی ہے :

ہمچو گندم می کشد، ہر کس در این ہفت آسیا

آن قدر رنجی کہ بر می آورد نانش ز سنگ

ہر کجا باشد قناعت آبیار اتفاق

پہلوی از نان تہی ایجادگندم می کند

ندانم این ہمہ کوشش برای چیست کہ چرخ

زانجم آبلہ دارست چون کف مزدور

ہیچ کس ہمت ندارد مثل سوزن در جہان

باوجود تنگ چشمی پردہ پوش عالم است

بیدل کی مصرع بافی اور اس میں آنے والی تراکیب نادرہ کاری کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔ وہ ہر غزل میں ایسی فضا قائم کرتے ہیں جو ہر شعر کے بین السطور میں چلتی ہے اور آخر کار قاری کے ذہن میں وحدت تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ انہوں نے باقی شعرا کی طرح بیشتر اپنے پیش روؤں سے تمثالیں، استعارے اور تراکیب مستعار نہیں لیں۔ وہ اپنے آفاق گیر اسلوب کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان پر مشکل پسندی کا بہتان باندھنا بعید از عقل ہی نہیں فن نا شناسی بھی ہے۔

ان کے بعد آنے والوں نے بیدل سے بے پناہ استفادہ کیا لیکن وہ ان جیسے فنی جوہر سے محروم رہے۔ متاثرین بیدل میں اردو کے تمام اساتذہ شامل ہیں اگرچہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو ان کی انوکھی دنیا کو سمجھ سکا ہو البتہ اتنا ضرور ہے کہ میر سے اقبال تک سب نے بیدل کے کسی نہ کسی پہلو سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بقول اقبال غالب بیدل کو درست طور پر نہیں سمجھ سکے۔

در جستجوی ما نہ کشی زحمت سراغ
جای رسیدہ ایم کہ عنقا نمی رسد
اردو اور فارسی شعرا پر بیدل کے اثرات کا ذکر آیندہ سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).