اپنی مٹی کی مسجد


میرا دوست لوگن تبت کا رہنے والا ہے اور بدھ مت کا پیروکار ہے۔ میرے قریب ہی اس کا دفتر ہے۔ آتے جاتے دفتر آ جاتا ہے۔ ہمیشہ بہت پیار سے اسلام علیکم کہ کرآ جاتا ہے۔ آج مجھ سے رمضان کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ روزے کے اصل مقصد پر گفتگو ہوئی۔ پھراچانک اپنی کہانی سنانے لگا۔ جب چینیوں کے مظالم بڑھ گے تو ہم تبت سے انڈیا ہجرت کر گئے۔ اتر پردیش میں جوکہ اب دو صوبوں میں بٹ گیا ہے۔

ہمارا مہاجر کیمپ بنا۔ میں نے کینیڈا آنے سے پہلے جوانی اس کیمپ میں گزاری۔ کیمپ کے بالکل قریب ایک خوبصورت گاؤں تھا۔ جہاں ہم آتے جاتے تھے۔ وہاں آدھ مسلمان اور آدھے ہندو بڑے سکوں سے رہ رہے تھے۔ مندر اور مسجد دونوں تھے۔ مگر کبھی کوی جھگڑا نہیں تھا۔ پھر ایسے میں چند مسلمان جوانوں کی سعودیہ میں جاب ہو گئی۔ وہ پیسے لے ائے اور گاؤں میں ایک بڑی مسجد بنائی۔ مسجد مندر سے زیادہ بڑی اور پکی بنی۔ ان میں سے کچھ سعودیہ پلٹ مسلمانوں نے گاؤں والوں کے لیے اسلام کی کچھ نئی باتیں بھی شروع کیں۔

اور شاید ہندو بھی نئی مسجد سے کچھ حسد کرنے لگے۔ اور گاووں میں نفرتیں اور بے سکونی بڑھ گئی۔ آپس میں جھگڑے بھی شروع ہو گئے اور اب شاید وہی حال ہے۔ لوگن نے جاتے جاتے سوچوں میں گم کر دیا۔ اپنی اور اپنے گاؤں اور علاقے کی کہانی یاد دلا دی۔ ہم بھی بہت سکون، امن اور بھائی چارے کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہماری بھی مٹی اور پتھر سے بنی مسجد تھی۔ بڑے والے ہال میں سوکھی گھاس بچھی ہوتی تھی اور باہر کھجور کے پتوں سے بنے صف۔

پھر 1980 کے آس پاس۔ بیرونی امداد سے سنگ مرر کی مساجد کا دور شروع ہوا۔ ان مساجد کے امام صاحبان بھی مسسجد بنانے والوں کے مکتبہ فکر کے لائے گئے۔ اور رفع یدین، آمین تیز یا آہستہ، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور کافر کافر کے نعرے دیکھنے اور سننے کو ملے۔ باقی نفرتوں، تعصب، ظلم اور بربریت کی ایک لمبی داستان ہے۔ وہ مٹی اور پتھر سے بنی مسجد یاد آنے لگی۔ جیسی بھی تھی۔ اپنی تو تھی، سکون تو تھا۔ ان سوکھے گھاس پھوس پر نماز اور سجدے کا ایک اپنا مزہ تھا۔

وہ پیاری خوشبو اب بھی ذہن میں نقش ہے۔ میرے تو پیارے پیارے شیعہ دوست تھے۔ اب بھی طاہر بنگش کا خوبصورت چہرہ اور لہجے کی مٹھاس یاد آرہی ہے۔ اس کے گھر افطاری میں ہمارے بڑے مزے ہوتے تھے۔ ہم سنی دوست روزہ ان سے دس منٹ جلدی کھولتے تھے۔ وہ بیچارے دیکھتے رہتے۔ اور ہم ان کا خوب مذاق اڑاتے۔ محبت تھی، امن تھا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ تھا۔ مسجد جو اپنی تھی۔ کیا ہوا جو مٹی اور پتھر کی بنی تھی۔

کچھ پچیس سال بعد۔ کینیڈا کے ایک جھوٹے سے بہت خوبصورت شہر کی یونیورسٹی میں جاب ملی۔ یہاں تھوڑے سے مسلمان تھے۔ اور انہوں نے مل کر اپنے لیے دریا کے کنارے ایک پرانا چرچ خرید لیا تھا۔ اور پیاری سی مسجد بنا لی تھی۔ بلڈنگ تو پرانی تھی۔ عید کے نماز کے لئے چھوٹی بھی۔ بچوں کے ہفتہ وار کلاس کے لیے بھی ہمیں ایک سکول کرائے پر لینا پڑتا۔ خیر ہم نے نئی مسجد کے لیے مہم شروع کی۔ میں مسجد کمیٹی کا ممبر تھا اور ذمہ داری بھی تھی۔

دوسرے ممبرز مراکو، سعودی، مصری، لیبیا، الجزیرہ، اور مقامی کینیڈین تھے۔ بہت پیارے لوگ تھے۔ مالی مشکلات تھیں۔ لیکن ہم نے کوششش جاری رکھی۔ ایسے میں۔ سعودی کلچرل اتاشی کینیڈا کے مسلمانوں کے دورے پر تھا۔ اس کو ہمارے چھوٹے سے شہر کے بارے میں پتہ چلا اور پیغام بھیجا کہ ہم آپ کے لیے مسجد بنا دیں گے۔ کمیٹی میں بات آگی۔ اور میرے نظروں کے سامنے اپنے بچپن اور جوانی کی پوری کہانی فلم کی طرح گھومنے لگی۔

پتہ نہیں کیا ہوا کھ میں نے سب کو صاف الفاظ میں کہا۔ نو بردرز۔ نہیں۔ بالکل نہیں ہمیں سنگ مر مر کی نہیں۔ بس اپنی یہ دریا کے کنارے لکڑی سے بنی مسجد کافی ہے اور اگر بنائینگے تو اپنے فنڈ سے بنائینگے۔ کچھ احباب نے تھوڑی بحث کی۔ لیکن جوان ڈٹ گیا تھا۔ اور آخر کار اتاشی صاحب کو انکار کے ساتھ شکریے کا پیغام بھیجا گیا۔ مسجد جیسی بھی ہے اپنی تو ہے۔ امن اور سکون تو ہے نا۔ اپنا ایک تعلیم یافتہ امام ہے۔ جس کو نفرتوں کے کاروبار سے کوی واسطہ نہیں۔

ہم سنی، شیعہ، مالکی، دیوبندی۔ سب ایک ہی صف میں ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اب تو میں وہ شہر چھوڑ آیا۔ جدائی مشکل تھی۔ وہ بھی بہت اداس تھے اور میں بھی۔ اللہ ان سب کو اپنے امان میں بہت سکون کے ساتھ رکھے۔ آمین آج اپنے تبت کے لوگن نے اپنی چھوٹی سی کہانی سنا کرکہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اپنی مٹی کی پرانی مسجد یاد دلا دی .


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).