ہنگامہ ہے کیا برپا؟


چیرمین نیب سابق جسٹس جاویداحمد کی ویڈیو کیا لیک ہوئی کہ اک شور برپا ہو گیا جس کو دیکھو وہی اس پہ لکھ اور بول رہا ہے۔ ہماری قوم ایک دم کیوں جذباتی ہو جاتی ہے ذرا سوچیے یہ معاملات فقط مہر و محبت کے ہیں یہ واردات عشق و عاشقی کی ہے نہ کے کوئی احتسابی عمل۔

یہ بس داستان حسن یار ہے یہاں تذکرہ کسی بڑے مالیاتی سکینڈل، منی لانڈرنگ یا بد عنوانی کا نہیں یہاں خالص رخ محبوب کا ذکرہے اور اس سے ذرا بڑھ کر فقط چوم لینے تک کی بات ہے۔ یہ صرف سابق جسٹس چیرمین نیب کا ہی معاملہ نہیں شعراء حضرات ہمیشہ سے حسن فطرت کے ساتھ ساتھ اپنے مجازی محبوب کی تعریف میں رطب اللسان رہے ہیں۔ شاعری میں محبوب کے حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔ شعراء نے واقعیت اور تخیل کی مدد سے اپنے محبوب کے حسن کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کی ہے اور رخ یار کے تذکرے ادب اور شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔

اب کسی شعر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے چیرمین نیب نے رخ یار کی بات کر ہی دی تو اس پہ شور غل کیسا؟

کیا کسی کو سلام بھیجنا بھی ایک اچھی روایت نہیں۔

کیا ہوا جو چیرمین نیب نے فاروق صاحب کو سلام کہلوا بھیجا اور رہی بات گلے نہ لگنے کی تو اس گرمی میں اتنا معقول  اور سرکاری مشورہ دینے میں کیا غلط ہے۔ ایک بڑے منصب پہ براجمان ہوتے ہوئے کیا وہ عوام کا اتنا بھی خیال نہ رکھیں۔

بات ہے رخ یار کی تو بہت پہلے یہ تو عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے اپنے مشہور گانے میں کہا تھا کہ،

چوم لینے دو رخ یار کو جی بھر کے ہمیں۔

یہ تو عام سی بات ہے اس پہ چیرمین احتساب کا احتساب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ صرف اتنی بات کہنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ سابق جسٹس چیرمین نیب جاوید احمد رخ یار سے تھوڑا تجاوز کر گے ہیں اور رخ یار کی حدود کو پامال کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحدوں کا احترام نہیں کیا لیکن یہ معاملہ اتنا بھی سنگین نہیں کہ اس کو بین الاقوامی عدالت میں لے جایا جائے سرحدوں پہ آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور یہ کیس کسی صورت بھی در اندازی کے زمرے میں نہیں آتا۔

آڈیو ویڈیو لیک کے بعد عام آدمی کا یہ شک کہ بطور جسٹس سپریم کورٹ جسٹس جاوید احمد صاحب کے فیصلے بھی رخ یار سے بڑھ کر پیکر یار کے بوس کنار پہ مبنی تو نہیں تھے کسی صورت مناسب نہیں لیکن شک کا علاج نہیں شک کیا بھی جا سکتا ہے شک کرنے والے بھلا کب باز آتے ہیں۔

رہا موجودہ احتساب کا عمل تو وہ شفاف طریقے سے چل رہا بس فاروق صاحب کے ساتھ کئی دیگر صاحبان کو بھی شاید درپردہ سلام بھیجے جاتے ہوں اور اس صورتحال میں بغل گیر ہونے یا نہ ہونے کے سرکاری و غیر سرکاری مشورے دینا بنتا بھی ہے اور دے بھی جاتے رہے ہوں گے اور یہ سلسلہ تاحال بھی جاری دکھائی دیتا ہے۔

لہذا قوم فاروق صاحب کے ساتھ اعلیٰ ایماندای کے اعلیٰ عہدے پہ فائز رخ یار کے دیوانے اور پیکر محبوب کے بوس کنار کی شدید دلی خواہش رکھنے والے قومی متحسب اعظم کو سلام عرض کرتی ہے۔ لیکن عقل ناقص اب یہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ رخ یار کی اس چوما چاٹی نے نہ جانے کتنے بیگناوں کو تختہ دار تک پہنچایا ہو گا اور کتنے پیشہ ور مجرم فاروق صاحب کو سلام اور دعائیں دیتے ہوئے باعزت بری ہوئے ہوں گے۔

کہا جاتا ہے یحییٰ خان نے بھی ملک سے زیادہ رخ یار پہ توجہ دی تھی اور وطن سے زیادہ پیکر یار کو دل و دماغ میں بسا رکھا تھا اب کالے بنگالیوں کا حسن یار سے کیا مقابلہ اس لیے ان کو باسٹرڈ کا اعزاز بخش کر ان سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی تھی۔ ملک ٹوٹا یا نوے ہزار فوج ہتھیار بر زمین اور قیدی ہوئی تو کیا ہوا رخ یار کی ایک جھلک پہ یہ سب کچھ قربان، ملک آنی جانی چیز ہے، جناح اور اقبال پھر پیدا ہو کہ ملک بنا لیں گے۔ ملک بنانا ان کا کام تھا ہمارا کام تو بس رخ یار پہ للچائی ہوئی نظریں مرکوز رکھنا ہے۔

لیکن اب موجودہ حالات و واقعات عام آدمی کو اس شک میں مبتلا کرتے ہیں کہ کہیں جناح اور اقبال نے رخ یار سے بڑھ کر پیکر محبوب کے بوس کنار کے لیے ہی تو یہ ملک بنا کہ اس قوم کے حوالے تو نہیں کیا تھا۔

بات لمبی ہو جائے گی رخ یار سلامت رہے، بات کو زلف یار کی طرح طول دینے کی بجائے لمحہء وصال کی طرح مختصر کرتے ہیں کہ چیرمین نیب انصاف کے علمبردار اور سابق جسٹس عدالت عظمیٰ نے محبوب کے خدوخال اور مختلف اعضائے جسمانی کا بہت خوبصورتی کے ساتھ نقشہ کھنچنے کی جوکوشش کی ہے وہ قابل تعریف اور ان کی قابلیت کی واضح مثال ہے۔

زرا غور کیا جائے تو یہ معاملہ معمو لی نوعیت کا نہیں بلکہ یقیناً اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ چیرمین نیب احتساب کے عمل کو غیر جانبداری اور باریک بینی سے سرانجام دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور وہ یہ فریضہ احسن طریقے سے نباہ بھی رہے ہیں اب قوم کو کو شفاف احتساب کے مو جودہ عمل کو بھیینگی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہے۔

یہاں بس ایک اور پہلو قابل ذکر ہے کہ جس مشہور گانے میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے رخ یار کو چوم لینے کی بات کی ہے کہ،

چوم لینے دو رخ یار کو جی بھر کے ہمیں

پیار پوجا ہے ہمیں پیار سے روکا نہ کرو۔

اسی میں آگے چل کر فرماتے ہیں کہ

خود ہی بک جاؤ گے اک روز یہ سودا نہ کرو۔

اس لیے عدالت عظمیٰ کے سابق جسٹس اور چیرمین نیب کا یہ سلام فقط فاروق صاحب کے لیے نہیں پوری قوم کے لیے ہے۔ پوری قوم یہ سلام خوشی خوشی قبول کرے اور تسلی رکھے کہ وقت بہترین منصف ہوتا ہے اور بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ وقت اس کا جواب و علیکم السلام کی صورت میں دے گا

بلکہ رحمتہ اللہ و برکاۃھو بھی کہے گا۔

عجب تیری ہے اے محبوب صورت

نظر سے گر گئے سب خوب صورت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).