میرے ماموں مظہر کلیم کی پہلی برسی پر اُن کی یاد میں


آج میرے ماموں مظہر کلیم کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک برس گزر چکا ہے۔ دس رمضان المبارک چھبیس مئی دو ہزار اٹھارہ کو صبح سحری کے وقت صرف ایک روز کی علالت کے بعد وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ میں نہ یہ سوچا ہے کہ موقع کی مناسبت سے کچھ باتیں آپ کے ساتھ ان کے بارے میں شیئر کروں۔

مجھے زندگی بھر اس بات پر فخر رہا ہے کہ مظہر کلیم ایم اے میرے سگے ماموں ہیں، سکول سے لے کر جاب تک، مجھے ہمیشہ یہ تعارف کرواتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ جب میرے سکول کے دوست فرمائش کرتے کہ ہمیں ان کے آٹوگراف والا ناول لا دو تو سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ ہم انہیں بڑے ماموں کہتے تھے کیونکہ دو مامووں میں وہ بڑے تھے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، دن میں دیوانی مقدمات کے وکیل، شام میں عمران سیریز کے مصنف اور ریڈیو پاکستان ملتان کے مشہور پروگرام جمہور دی آواز کے اینکر پرسن مظہر سائیں۔

ماموں کی مردانہ وجاہت سے بھرپور طویل القامت شخصیت ملنے والے کو مسحور کر لیتی تھی۔ ہر وقت ان کے گرد ایک محفل جمی رہتی تھی اور وہ اپنے ذوق اور لطیف حس مزاح کی بدولت اس کو کشت زعفران بنائے رکھتے تھے۔ لڑکپن میں باڈی بلڈنگ کے شوقین رہے تھے اور ایمرسن کالج ملتان کی باسکٹ بال ٹیم کا بھی شاید حصہ رہے تھے کیونکہ اس ٹیم کی تصویر ہمارے گھر میں کہیں لگی ہوئی تھی۔ میں نے ان کو ہمیشہ ایک ہی روٹین میں دیکھا۔ صبح کچہری، دوپہر اشرف بک ڈپو اور شام ریڈیو پروگرام۔

ان کی بڑی زبردست اور بھاری آواز ریڈیو اینکر کے لئے بہت مناسب تھی اور ان کا پروگرام جمہور دی آواز، ریڈیو ملتان کا بہت پسند کیا جانے والا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں وہ اور ان کے ساتھی اینکر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، فون کالز لیتے تھے اور زرعی مسائل سے لے کر موجودہ ملکی صورتحال، سب موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ ریڈیو ان کا شوق تھا اور وہ اپنے انتقال تک اس سے منسلک رہے۔ ایک دفعہ انہوں نے سیلاب کی کوریج کے بارے میں بتایا کہ موبائل کے دور سے پہلے صرف ریڈیو اینکر ہی پانی میں پھنسے لوگوں کو تسلی اور دلاسا دے رہے تھے اور ریسکیو ٹیموں کی لوکیشنز فوج کے کنٹرول رومز سے لے کر ریڈیو پر براڈ کاسٹ کر رہے تھے تاکہ لوگوں کو اندازہ رہے کہ مدد کتنا قریب پہنچ چکی ہے۔ بہت سارے لوگوں نے بعد میں جمہور دی آواز میں فون کر کے بتایا کہ ان کا سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران واحد سہارا جمہور دی آواز کے اینکر مظہر اور مہر صاحب تھے۔ غرضیکہ اینکر شپ تو اب مقبول ہوئی ہے لیکن بقول ان کے تو عمر گزر گئی تھی اس دشت کی سیاحی میں۔

ستر کی دہائی میں انہوں نے ریڈیو کے لئے ڈرامے بھی لکھے اور شاید وہ اخبار میں تماشا مرے آگے کے عنوان سے کالم بھی لکھا کرتے تھے لیکن میں نے ان کے یہ کالم نہیں پڑھے۔ یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ ہر فن مولا تھے اور اگر یہ کالم اور ڈرامے اور اینکر شپ آج کے کمرشل دور میں کرتے تو شاید واقعی بہت دولت کماتے لیکن جو عزت ان کے حصہ میں اس نان کمرشل دور میں آئی، اس سے آج کے کروڑپتی صحافی اور اینکر محروم ہیں۔ وکالت اور فیملی کی مصروفیات نے آہستہ آہستہ ان کو عمران سیریز تک محدود کر دیا۔ انہوں نے باقی سب کام شوق میں کیے اور ویسے بھی ان دنوں ادیب، اپنے ادب سے کمانے کی تو کوئی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

ان کی محفل جمانے اور کہانی نویسی کی صلاحیت شاید اپنے دادا سے ورثہ میں ملی تھی جو بچوں کو کہانیاں سنانے کے ماہر تھے۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ شام کو سب بچے ان کے گرد جمع ہو جاتے اور کہانی کی فرمائش کرتے اور پھر کمر اور ٹانگیں دبواتے ان کے دادا کہانیاں شروع کرتے جو کئی راتوں تک جا کر ختم ہوتیں۔ ماموں کی بچوں کی ایک کہانی ’ہیرا من طوطا‘ شاید ان کے دادا کی سنائی ہوئی کسی کہانی سے ماخوذ تھی۔ ماموں خود بھی منظر کشی کے ماہر تھے اور ہم بچپن میں ان کے پرانے کڑی افغاناں والے گھر میں چھت پر جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہوں نے کوئی لمبی کہانی سنائی ہوئی تھی کہ اوپر جن رہتے ہیں، اور وہ بچوں کو اب یاد نہیں کہ کیا کیا کرتے ہیں۔

اسی طرح شاید اندر والے کمرے میں غلام گردش کے دروازے پر انہوں نے ایک کہانی سنائی کہ جب وہ اس میں داخل ہوئے تو کیسے ایک جن کی بستی میں داخل ہو گئے۔ کہانی کہ اتار چڑھاؤ عمرو عیار کے طلسم ہوشربا کے کارناموں جیسے تھے اور ہم سارا بچپن اس دروازے کو ہاتھ لگاتے بھی ڈرتے تھے لیکن سامنے کھڑے ہو کر اشتیاق سے دیکھتے رہتے تھے کہ پتہ نہیں کون سی دنیا اس دروازے کے پیچھے موجود ہے۔

نانی اماں کے پرزور اصرار پر انہوں نے وقتا فوقتاً آنے کے علاوہ جمعہ کا دن آنے کے لئے مقرر کر دیا تھا (ہم اپنی نانی اور نانا کے ساتھ محلہ امیر آباد میں رہتے تھے ) ۔ میں جمعہ نماز سے واپس آتا اور سارا گھرانا دروازے کی طرف کان لگائے رکھتا۔ اچانک سکوٹر کی آواز آتی اور ’بڑے ماموں آ گئے‘ کی آواز بلند ہوتی۔ میں ان کا استقبال کرنے کے لیے دروازے کی طرف لپکتا اور سلام کر کے ان کے پیچھے گھر میں داخل ہوتا۔ سردیوں میں صحن اور گرمیوں میں دالان میں بیٹھتے، ان کے لیے کرسی رکھی جاتی اور امی ان سے مل کر چائے تیار کرنے باورچی خانے میں چلی جاتیں۔

اس کے بعد دو گھنٹے کی زبردست اور دلچسپ محفل منعقد ہوتی جس کے روح رواں ماموں ہوتے۔ ہر تھوڑی دیر بعد ایک قہقہہ ضرور لگتا کیونکہ ماموں زبردست حس مزاح رکھتے تھے۔ جب وہ اٹھتے تو ہم سب کے منہ لٹک جاتے کیونکہ اتنی دلچسپ محفل ختم کرنے کا دل بالکل نہیں چاہتا تھا۔ جب امی مجھے کوئی چیز لانے کے لئے دکان پر بھیجتیں تو مجھے سخت کوفت ہوتی کیونکہ ان کی دلچسپ گفتگو سے محروم ہو جاتا اور میں چاہتا تھا ہر وقت ان کے ساتھ ہی بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہوں۔ واپسی پر ان کو دروازے تک چھوڑنے جاتا اور اس وقت تک ان کو دیکھتا رہتا جب تک ان کا سکوٹر گلی سے مڑ نہ جاتا۔

وہ زمانے موبائل کے نہیں تھے لہذا نانی اماں اور ماموں کے درمیان ایس ایم ایس سروس کی ذمہ داری بھی میری ہی ہوتی تھی۔ ہمارا گھر محلہ امیر آباد میں تھا جو کچہری کے عقب میں واقع ہے اور گھر سے ان کے چیمبر (نمبر 47 ) کا فاصلہ دس سے پندرہ منٹ کا تھا۔ میں جب بھی ان کی سیٹ پر پہنچتا، تو اگر وہ عدالت میں نہ ہوتے تو یا سیٹ پر تین چار افراد کیس پر گفتگو کر رہے ہوتے یا وہ کینٹین پر دوسرے وکلا کے ساتھ چائے اور سگریٹ پر خوش گپیوں میں مصروف ہوتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3