اُسے اس کا گولا گنڈا کھانے دو


آج زوجہ محترمہ کو لینے اُن کے سکول گیا اور حسبِ عادت سکول کے سامنے گاڑی پارک کر کے اُن کا انتظار کرنے لگا۔ جوں ہی پرائمری سیکشن کی چھٹی ہوئی، معصوم بچیوں کا ایک ریلہ سکول سے نکلا اور سٹرک کنارے کھڑے گولے گنڈے، پاپڑ اور قلفی والوں پر دھاوا بول دیا۔ گو کہ رمضان کا مہینہ ہے مگر مجھے خوشی ہوئی کہ سکول انتظامیہ اور اہل محلہ نے بے جا پابندی لگا کر اِن دیہاڑی داروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہیں کیے۔

مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک غریب پشتون خاتوں ہمراہ ایک چھوٹے بیٹے کے اپنی بچی کو لینے کھڑی تھی۔ بچی نے سکول نے نکلتے ہی بستہ اپنی والدہ کو پکڑایا اور دوڑ کر گولے گنڈے والے کی ریڑھی کے گرد لگی بھیٹر میں جا کھڑی ہوئی۔

عورت کے ساتھ موجود لڑکے نے اپنی ماں کی چادر کھنچ کھنچ کر اُس سے دس روپے مانگنے شروع کیے۔ عورت نے پیار سے اُسے سمجھایا کہ اُس کے پاس سرِدست پیسے نہیں ہیں۔ مگر لڑکا نہ مانا، اُس نے اکثر بچوں کی طرح وہی زمین پر لیٹ کر رونا شروع کر دیا اوراپنی ضد جاری رکھی۔ عورت نے دو چار بار اسے اٹھا کر کھڑا کیا مگر وہ پھر پھیل کر زمین پر ناصرف لیٹ گیا بلکہ اب رونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ پاؤں مار مار کر تڑپنے بھی لگا۔

عورت نے جب دیکھا کہ یہ ماننے والا نہیں تو بیٹی کو گھر کی طرف آنے کا اشارہ کرتے ہوئے، لڑکے کو وہی زمین پر لوٹتا چھوڑ کر چند قدم گلی کے اندر داخل ہو گی مگر اس کی مکمل توجہ اپنی بچی پر مرکوز تھی۔ یقینا وہ ملک کے طول و ارض میں بچیوں سے ہوتے زیادتی کے واقعیات سے واقف تھی جب ہی اُسے لینے بھی خود آئی اور اب اپنی عقابی نگائیں اس پر رکھے ہوئے تھی۔

جب تک بچی کو گولہ گنڈا ملا اُس وقت تک لڑکے نے رو رو کر نہ صرف آسمان سر پر اٹھا لیا بلکہ اپنے کپڑے بھی مٹی سے غرق کر لیے۔ ماں واپس پلٹی، لڑکے کو دوبارہ اٹھایا مگر وہ پھر سے مرغ بسمل کی طرح زمین پر لیٹ کر تڑپے لگا۔ اس دوران بچی گولا گنڈا ہاتھ میں لیے بھاگتی آئی۔ ابھی اس نے گولے کا شربت ایک بار بھی نہ چوسا تھا کہ ماں نے اُس کے ہاتھ سے گولہ لے کر بیٹے کو پکڑا دیا۔ بچی نے حسرت بھری نگاہوں سے گولے کو دیکھا اور ماں کا ہاتھ پکڑ کے نمناک نگاہوں سے گھر کی جانب روانہ ہو گی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

اللہ پاک نے بیٹیوں کو کیسا دل دیا ہے۔ ؟ یہ قربانی کا جذبہ یہ ایثار اور محبت رب کی دھرتی پر کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ بچپن سے بڑھاپے تک، پیدائش سے زندگی کی آخری سانس تلک، بیٹیاں ماں باپ بہن بھائیوں کے لیے اپنا آپ مار کر قربانی دیتی ہیں۔

کیا ہم اور آپ نے ایسی بچیاں نہیں دیکھیں جو نو دس سال کی عمر میں اسٹاپو یا لنگڑ بلی کھیلتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالے رکھتی ہیں۔ تھکن سے چور ہو کر کبھی اُسے زمین پر بٹھا دیتی ہیں مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد آ کر اس کی بہتی ناک صاف کرتیں اور منہ چومتی ہیں اور پھر سے اسٹاپو کھیلنے لگ جاتی ہیں۔

مجھے خدا نے دنیا کی ہر نعمت دی مگر میں اپنے گناہوں کی بدولت بیٹی جیسی نعمت سے محروم رہا۔

میری پھوپھو کہا کرتی تھیں کہ ”بیٹیوں بنا تو جنازے بھی نہیں سجتے“ اس بات کی سمجھ اُس وقت آئی جب پھوپھا ایک سو پانچ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کے تینوں بیٹے اعلی عہدوں پر فائر تھے اور افسوس کو آنے والوں سے رسمی انداز میں پرسا لے رہے تھے۔ نہ کسی کی آنکھ میں آنسو تھے اور نہ غم کی شدت ان چہروں پر عیاں تھی۔

جنارہ اٹھاتے ہی بیٹیاں یوں تڑپ کر روئیں کہ بیٹوں کے ساتھ ساتھ آسمان کا جگر بھی پھٹ گیا اور شام تلک آسمان ان کی فوتگی پر روتا رہا۔

نہ جانے اس ملک کے نوجوانوں کو ایسی کیا بیماری لگ گئی کہ وہ خونی درندوں کی مانند ان معصوم بچیوں کی عزتیں تار تار کرنے لگے۔ یہ پھول، یہ کلیاں اگر ہمارے گلستان سے روٹھ گئیں تو پھر خدا کی رحمت بھی اِس ارض وطن سے روٹھ جائے گی۔

بنی کریم نے اپنی چادر ننگے سر پھرتی یہودی کی نوجوان بیٹی کو تن سر ڈھانپے کو بجھواتے ہوئے یہ فرمایا تھا۔

” بیٹی یہودی کی ہو یا مسلمان کی، بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے“ رسول خدا اپنی دختر حضرت فاطمہ کے لیے اپنے دستِ مبارک سے زمین صاف کر کے اپنے سر کی چادر ان کے بیٹھنے کو بچھاتے۔ ہم ان کے دین کو ماننے والے، ان کا کلمہ پڑھنے والے کیوں کر ایسے بے حس ہو گے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے۔

اگر ہم نے اب بھی اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ پاک ہمیں بیٹی جیسی نعمت دینے سے انکار کر دیں گے۔ پھر چاند کی روشنی روٹھ جائے گی، سورج کی تپش آگ برسائے گی، برستی بارش ہمارے جسم جھلسائے گی اور زمین اناج دینا بند کر دے گی۔ تو خدارہ سب کی بچیوں کو اپنی بچیاں سمجھیں اُن کی حفاظت کریں اُنھیں اُن کا گولا گنڈا کھانے دیں کسی بیٹے کو یہ حق نہ دیں کہ بہن کے منہ سے چیز کھیچ لے۔ وہ بہن ہی تھی جو برداشت کر گئی۔

سارے دن بھوکی سکول کی تھکی بیٹی نے سارا دن اپنے دس روپے کیسے سنبھالے ہوں گے اور اس معمولی سے گولے گنڈے کو کیسے معصوم خواب بنے ہوں گے۔ کبھی کسی بیٹے کے ہاتھ سے کھانے کی چیز چھین کر بیٹی کو دیں پھر دیکھیں یا قیامت ڈھاتا ہے۔ خدارا ظلم نہ کریں، ڈریں اُس وقت سے جب خدا ہمیں بیٹیوں جیسی نعمت دینے سے ہاتھ روک کر ہمارے جنازے بنا آنسوؤں کے قبرستان بھیجنے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).