شنگریلا کی تلاش


اگلے دن ہم اپنی نئی منزل اسکردو کی طرف روانہ ہوئے۔

ہماری گاڑی میں جابجا کئی قسموں کی چیری سے بھرے چھوٹے بڑے شاپنگ بیگ لٹکتے تھے۔ کوئی سیٹوں کی ٹیک کے پیچھے کوئی شیشوں کے ساتھ کوئی ہینڈلز کے ساتھ۔ یہ سوغاتیں ہمیں علی حرمت نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پالے ہوئے درختوں سے توڑ کر دی تھیں۔ اس کارِ خیر میں ان کے والدِ محترم اور تایا بھی پیچھے نہیں رہے تھے اور اس دوران وہ ہمیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے رہے تھے۔

ہم آنسوؤں کی بارات آنکھوں میں لئے اوراپنے میزبانوں کی پیاری آنکھوں کو آنسو دے کر ہنزہ سے نکلے تھے۔ اجنبی دیس میں وہ اجنبی اتنے پیارے تھے کہ پیار ان پر نازاں تھا۔ وہ غیر تو تھے مگر اتنے اپنے اپنے تھے کہ اپنوں کو بھی انہیں دیکھ کر رشک آتا تھا۔ وہ اپنایت کے معانی تھے اور قربت کے پیکر تھے۔ وہ ایک ایسی کتاب کی مانند تھے جو پڑھنے سے پہلے اجنبی ہو اور جوں جوں اُسے پڑھنے کا سفر کٹے وہ اپنی ہوتی جائے۔ ہم نے اُس پیار بھری کتاب کو پڑھا اور پھر سینے سے لگا لیا۔ ۔ ہمیشہ کے لئے۔ وہ اسی کے حقدار تھے کہ ان کے ساتھ بتائے دنوں کی یادوں کو ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا جائے۔ ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کے وعدوں کے ساتھ ہم جدا ہوئے تھے۔

جب تلک زیست کا سفینہ بہے

اجنبی اجنبی کو یاد رہے

مجید امجد

کریم آباد سے نکلے تو راستے میں خوبانی کے باغات آتے اور چلے جاتے۔ وقار ان باغات کو اس طرح دیکھتا تھا کہ جیسے بندر کیلے کے درختوں کو دیکھتا ہو۔ وہ ان کے قریب پہنچ کر رفتار بھی کم کر لیتا تھا۔ اپنی دھوپ کی عینک ناک سے نیچے کھسکا کر درختوں کو یوں دیکھتا تھا جیسے چوراہے میں کھڑا کو ئی بانکا گزرنے والی حسیناؤں کو دیکھتا ہو۔

ایک جگہ پہنچ کر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ گاڑی روک کر پتھروں کی چھوٹی سی دیوار پھلانگ کرایک باغیچہ میں چلا گیا، جہاں خوبانی کے جابجا درخت موجود تھے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچاکہ اب ان خوبانیوں کی خیر نہیں۔ ان کاحال بھی وہی ہوگا جو ہماری حکومتیں ملکی خزانے کا کرتی ہیں۔ اُس کے پیچھے پیچھے عابد، شاہزیب اور زین بھی ندیدوں کی طرح باغیچے کی طرف بڑھے۔ جب سب وہاں پہنچے تو میرے اندر سے صدا آئی۔ لو بھائی! اب یہ چاروں مرد ذات ان خوبانیوں کو خر بانیاں بنا کر چھوڑیں گے۔ ہم میدانی لوگ اپنی شے کسی کو تکنے بھی نہیں دیتے اور دوسروں کی چھوڑتے نہیں۔ یہ تو مفت کی تھیں۔ مفت کی تو مفتی بھی نہ چھوڑے۔ سب ہاہو کرتے خوبانیوں کے پیڑوں سے بھرے باغیچے کو دشمن کا علاقہ سمجھ کر لشکر بنے چڑھ دوڑے تھے۔

وقار اپنے لمبے قد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹہنی نیچے کرتا تھا اور باقی سب خوبانیاں نوچتے تھے۔ عابد جس انداز میں ان پر ہاتھ صاف کر رہا تھا لگتا تھا کہ حکیم صاحب کے مشروب نے موصوف کا ہاضمہ کچھ زیادہ ہی ٹھیک کر دیا تھا۔ وہ وقار کی چادر تانے کھڑا تھا، چادر پر گرنے والی ہر خوبانی کو اس کی نظروں کا امتحان پاس کرنا پڑتا تھا۔ جو اچھی دکھتی اس کے منہ میں چلی جاتی۔

خوبانیاں بھی ایسی شریف الطبع تھیں کہ دہن میں جانے سے پہلے ذرا سا بھی احتجاج نہیں کرتیں اور منہ میں جاکر مکھن ہو جاتیں۔

” خدا کے بندو اتنا لالچ اچھا نہیں۔ بس کرو۔ “

میں نے ان کے اندر سے پھسلتی انسانیت کو ہاتھ سے جاتے دیکھتے ہوئے کہا۔

” آگے بھائی جان کچھ نہیں ملنا۔ جمع کر لیں راستے میں کھاتے رہیں گے۔ “

وقار نے جواب دیا۔

زین نے محض میرا منہ بند رکھنے کی خاطر ایک خوبانی مجھے بھی پیش کر دی۔ جسے میں نے اپنے مفلر کے کونے سے صاف کر کے منہ میں رکھا تو مجھے اپنے بچپن کے روئی کے وہ میٹھے گولے یاد آگئے جو منہ میں جاتے ہی اس طرح پگھل جاتے تھے جیسے قومی سرمایہ ہمارے سیاست دانوں کی تجوریو ں میں جا کر پگھل جاتا ہے۔ ایسا غائب ہوتا ہے کہ تلاش کرنے پر بھی نہیں دکھتا۔

کسی کو دھونے کی پرواہ نہیں تھی، کسی کو صاف کرنے کا خیال نہ تھا۔ بس کھا رہے تھے۔ قومی سرمایہ بھی صاف ہوتا ہے اسی لئے ہمارے قومی سیاستدان اسے صاف کرنے کی زحمت اٹھائے بغیر بے دریغ اس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ جس کے ہاتھ میں جتنی کثرت سے جاتا ہے اُسی مقدار میں اُسے صاف کر تا چلا جاتاہے بالاخر یہ سرمایہ رکھنے ولا اتناصاف ہو جاتا ہے کہ وہ اشرافیہ بن جاتا ہے۔ پھر قانون بھی اُس کا اور قانون والے بھی اُس کے۔ جو جتنا بڑا سرمایہ دار بن جاتا ہے اتنا ہی زیادہ خود مختار ہو جاتا ہے اور یہاں تک کہ حکمرانی کا تاج بھی اُس کے قدموں میں جا گرتا ہے۔ اسی لئے غریب کا بچہ ڈاکٹر بننے کی خواہش کرتا ہے، انجنئیر بننے کا خواہش کرتاہے مگر حکمران بننے کی نہیں۔

خیر سب بکریوں کی طرح۔ خوبانیاں چر رہے تھے۔

” یار وہ سامنے بکریوں کو دیکھو تمہیں دیکھ کر کس طرح قہقہے لگا رہی ہیں اور کہتی ہیں، شکر ہے ہم انسان نہیں ہوئیں۔ “

”آپ کو نئی پتہ پاپا جی۔ وقار بھائی کہتے ہیں اس سے اچھی خوبانی پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ آپ بھی کھائیں ناں کیسی رسیلی ہیں شہد ہے۔ بس۔ “

زین نے دو خوبانیاں کمیشن کے طور پر مجھے پیش کرتے ہوئے کہا۔

وقار اور عابدکی پہنچ میں جتنی ٹہیناں تھیں خالی ہو چکی تھیں۔ وہ اُن ٹہنیوں کو ندیدوں کی طرح دیکھ رہے تھے جوُ ان کی پہنچ میں نہ تھیں۔ مجھے یقین ہے ان کے دماغ میں ان تک پہنچنے کی ترکیبیں چل رہی تھیں۔

” شکر ہے اللہ نے خوبانی کا پودہ بنایا ہے اگر خوبانی کی جھاڑیاں ہوتیں تو بکریاں ان سے پناہ مانگتیں۔ بس کرو۔ کہاں رکھو گے۔ پہلے چیری نے نوا ب زادیوں کی طرح ساری گاڑی پہ قبضہ جما رکھا ہے۔ “

میں نے اُن کا حد سے بڑھتا لالچ دیکھ کر روہانسی آواز میں کہا۔

خوبانیوں کی ایک کثیر تعداد گاڑی میں اُسی طرح پہنچائی جا چکی تھی جس طرح سوئزرلینڈ کے بنکوں میں پاکستانی سرمایہ پہنچایا جاتاہے۔

عابد وہاں سے کافی دور ایک اور پودے کے نیچے کھڑے درختوں میں اوپر کو دیکھ رہے تھے۔

” خبردار اگر مزید کسی پودے کو اپنے مکروہ عزائم کا نشانہ بنایا۔ عابد واپس آجائیں۔ “

میں نے اونچی آواز میں عابد سے کہا۔

” میں خوبانیوں کے لئے تو نہیں آیا سر! ادھر ایک پرندہ آیا تھا۔ اُسے دیکھ رہاتھا۔ “

عابد کی کھسیانی ہنسی سب نے سنی۔

وقار چادر میں بھری خوبانیاں قریب ہی بہتے ایک پختہ نالہ کے شیشہ پانیوں میں دھونے لگا۔ ہر دوسری خوبانی اس کے ہاتھوں سے ملیدہ ہو کر نالے میں بہہ جاتی۔ یوں ایک عدد شاپر میں کچھ مضبوط اعصاب کی مالک خوبانیاں گاڑی تک پہنچیں۔

خوبانیوں کے شاپر جب گاڑی میں آئے تو مجھے لگا کہ ہم فروٹ منڈی سے خریداری کر کے لوٹے تھے۔

میں یہ سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا کہ اگر ہمیں من و سلوی کی نعمت مل جائے تو ہم کیا کریں گے۔ دماغ نے یہی جواب دیا کہ پھر جرائم میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ ہم جمع کرنے کے چکر میں پڑ جائیں گے۔ ۔ ہم جمع کیوں کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم انسان ہیں۔ انسان کے پاس دانائی ہے سمجھ ہے یا حکمت ہے۔ شاید وہ اسی حکمت کی وجہ سے جمع کرتا ہے۔ اپنے کل کے لئے۔ شاید یہی مثبت رویہ ہے۔ چونکہ اُسے کل کے آنے کی توقع ہوتی ہے اسی لئے وہ اپنے کل کے لئے جمع کرتا ہے۔ مگر وہ دوسروں کا حق چھین کر کیوں جمع کرتا ہے۔ یہیں سے منفیت شروع ہوتی ہے۔ اپنے حق تک جمع کرنے کی بات تو ٹھیک ہے مگر جب آپ کا دستِ طمع دوسرے کی ملکیت کی طرف بڑھے تو یہ غلط ہے۔

انسان کی خواہشات بڑی عجیب ہیں بلکہ حیران کن ہیں۔ وہ خرچ بھی کرتا ہے اور جمع بھی کرنا چاہتا ہے۔ وہ محفل بھی چاہتا ہے اور خاموشی بھی۔ اپنی دہلیز کو بچانا چاہتا ہے اور دوسروں کی دہلیز پاٹنا چاہتاہے۔ وہ رونا بھی چاہتا ہے اور ہنسنا بھی چاہتا ہے۔ اُس میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ وہ معصوم بھی ہے اور گنہگار بھی۔ وہ حسن بھی ہے اور بدصورتی بھی۔ کبھی وہ پتھر بن کر پھولوں سے کھیلتا ہے اور کبھی پھول بن کر پتھر توڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).