افریقی غلاموں کی تجارت


میری یہ تصویر چند سال پہلے کی ہے میرے ساتھ ایک افریقن گائیڈ اور دو دوسرے غیر ملکی سیاہ بھی اس سیل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

یہ تصویر زینجیبار (تنزانیہ کا ایک جزیرہ) میں موجود ایک مرکز کی ہے جہاں عرب حکمرانوں کے دور میں تمام افریقہ سے افریقن مردوں کو پکڑ کر لایا جاتا تھا اور پھر ان کی درجہ بندی کرکے مختلف عرب اور یورپی ملکوں کو بیچا جاتا تھا۔

اب یہاں ایک میوزیم اور چرچ قائم کردیا گیا ہے اور افریقن غلاموں کی تجارت کے مراحل کو محفوظ کیا گیا ہے تاکہ آج کے لوگ سمجھ سکیں کہ افریقہ کے لوگوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کیا جاتا تھا۔

جیساکہ اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کے اس سیل میں ہم چار لوگ بمشکل بیٹھ سکتے ہیں اور سیدھا کھڑا ہونا تو ناممکن ہے۔

اس سیل میں پچاس کے قریب افریقن غلاموں کو بند کر دیا جاتا تھا اور ان کو اس سخت حبس والے سیل میں تین چار دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا صرف یہ طے کرنے کے لئے کے اس خام مال میں سے سونا کشید کیا جاسکے مطلب یہ کہ اس بھوک پیاس اور حبس کے باعث ان پچاس غلاموں میں سے اکثریت تو ہلاک ہوجاتی تھی جو تھوڑے سے غلام بچ جاتے ان کو نیلامی کے اگلے مرحلے کے لئے پیش کیا جاتا تھا۔

نیلامی کا اگلا مرحلہ جہاں اب کرائسٹ چرچ کا چبوترہ بن چکا ہے اس چبوترے پر ان بچ جانے والے غلاموں کو ایک ستون کے ساتھ باندھا جاتا تھا۔

اور ہر غلام کو کوڑوں سے مارا جاتا تھا ان کوڑوں کی برسات میں یورپ اور عرب کے تاجر غلام کی قوت برداشت کے حساب سے اس کی قیمت لگاتے تھے اور پھر خریدے گئے غلاموں کو اس جزیرے سے یورپ یا عرب ملکوں کو بھیج دیا جاتا تھا۔

اس جگہ غلاموں کی اس تجارت کو مجسمہ سازی کے ذریعے بھی عوام کو دیکھایا گیا ہے اور تصویروں کے ذریعے بھی۔

اس جزیرہ میں سٹون ٹاؤن میں تاریخی آثار بھی موجود ہیں اس ٹاؤن کی گلیاں اور عمارتیں پاکستان کے شہر لاہور والڈ سٹی ایریا جیسی ہیں اور یہاں ایک قلعہ اور ایک محل بھی موجود ہے جس میں اومانی بادشاہ کے استعمال کی چیزوں اس کی گاڑیوں کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔

سمندر کے کنارے ایک پر فضا مقام پر عرب بادشاہوں کے عیش وعشرت کے لئے بنے تفریحی مقام کے اثار بھی موجود ہیں جہاں گائیڈ کے مطابق بادشاہ کے حرم میں ہزاروں نوجوان لڑکیوں کو رکھا جاتا تھا۔ ان آثار میں گرم اور ٹھنڈے پانی کا نظام بھی موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).