راہل گاندھی: کیا یہ گاندھی خاندان کی سیاست کا اختتام ہے؟


جمعرات کو جب وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کے عام انتخابات میں واضح فاتح کے طور پر ابھرے وہیں انڈیا کے گاندھی خاندان کے وارث اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی ایک کمزور اور ہارے ہوئے فرد کے طور پر سامنے آئے۔

اس الیکشن میں راہل کو دوہرے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک تو ان کی جماعت وزیراعظم مودی کی بی جے پی کی 300 سے زائد نشستوں کے مقابلے میں صرف 50 نشستیں ہی جیت پائی اور دوسرا یہ کہ وہ خود بھی امیٹھی کے حلقے سے اپنی خاندانی نشست ہار گئے۔

یہ بھی پڑھیے!

مودی کا انتخاب:’اچھی امید رکھیں مگر بدتر کے لیے تیار رہیں‘

انڈیا الیکشن: نریندر مودی ’تاریخی فتح‘ پر عوام کے شکرگزار

امت شاہ: جنھوں نے مودی کو سپرسٹار بنایا

تاہم وہ ہارلیمان میں پھر بھی ہوں گے کیونکہ اس مرتبہ انھوں نے دو نشستوں سے انتخاب لڑا تھا اور کیرالا سے وہ جیت گئے ہیں۔

مگر امیٹھی کی نشست ان کے لیے وقار کا معاملہ تھا کیونکہ یہ وہ نشست ہے جہاں سے ماضی میں ان کے والدین سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی الیکشن لڑے اور جیتے اور وہ خود بھی گزشتہ 15 برس سے یہاں سے جیتتے آ رہے تھے۔

راہل انڈیا کے ایک بڑے سیاسی خاندان کا حصہ ہیں۔ ان کے پڑدادا جواہر لعل نہرو انڈیا کے پہلے اور سب سے زیادہ عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم تھے۔ ان کی دادی اندرا گاندھی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور ان کے والد راجیو گاندھی انڈیا کے سب سے نوعمر وزیراعظم تھے۔

کوئی بھی کانگریس سے اس الیکشن میں واضح برتری سے فتح کی توقع نہیں کر رہا تھا مگر اس سے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر نتائج کی توقع ضرور تھی۔ اسی لیے جمعرات کو آنے والے انتخابی نتائج پارٹی کے اندر اور باہر بہت سے افراد کے لیے حیران کن ہیں۔

جمعرات کی شام راہل گاندھی نے دلی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے بی جے پی کو چنا ہے اور انھیں اپنا مینڈیٹ دیا ہے، میں تنائج تسلیم کرتا ہوں اور کانگرس کی شکست کی ذمہ داری بھی لیتا ہوں۔

حالانکہ اس وقت تک ان کے آبائی حلقہ امیٹھی میں ووٹوں کی گنتی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت بھی تین لاکھ ووٹوں کی گنتی ابھی باقی تھی لیکن انھوں نے بی جے پی کی امیدوار سمرتی ایرانی کے حق میں یہ شکست تسلیم کرلی تھی جو اس وقت صرف 30 ہزار ووٹوں کی برتری سے آگے تھیں۔

انڈیا

بی جے پی کی رہنما سمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کو ان کی آبائی نشست پر شکست دی

ان کا کہنا تھا’میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ جیت گئی ہیں، یہ جمہوریت ہے اور میں عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔’

کانگریس کی انتخابات میں بری شکست اور کارکردگی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر مزید بات نہ کرتے ہوئے راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ان تمام امور پر پارٹی کی فیصلہ ساز کانگریس ورکنگ کمیٹی میں بات ہوگی۔

انھوں نے کانگریس کے کارکنوں سے یہ ضرور کہا کہ جو ہارے ہیں یا جو جیت گئے ہیں وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنا کام محنت سے جاری رکھیں گے اور آخرِکار جیت جائیں گے۔’

انڈیا کی سیاست میں ریاست اترپردیش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جو جماعت اس بڑی آبادی والی ریاست سے جیتے گی وہی مرکز میں حکومت بنائے گی۔

یہ بھی پڑھیے!

’جنتا مالک ہے، مالک نے آرڈر دیا ہے، مودی جی کو مبارک‘

’مودی اور ان کے ایک نئے انڈیا کے تصور کی فتح ہے‘

انڈین الیکشن میں مودی کی جیت اور جشن: تصاویر

انڈیا کے 14 میں سے آٹھ وزرائے اعظم، بشمول راہل گاندھی کے پڑدادا، دادی اور والد اس ریاست سے تھے۔ اس ریاست میں لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے 80 نشستیں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جن کا تعلق تو گجرات سے ہے مگر انھوں نے بھی لوک سبھا کا رکن بننے کے لیے پہلا الیکشن سنہ 2014 میں اسی ریاست کے قدیم شہر وارانسی سے لڑا تھا۔

راہل گاندھی نے مستقبل کی فتح کا جو وعدہ کیا ہے وہ نئی دلی میں کانگریس کے مرکزی دفتر میں جمع ان ناامید پارٹی کارکنوں کو ایک سہانا خواب لگتا ہے جو ٹی وی سکرینوں پر آنکھیں چپکائے اپنی جماعت کے متعدد سینیئر عہدیداروں کو ہارتا دیکھتے رہے۔

ایک پارٹی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ‘ہماری ساکھ بہت کمزور ہے، لوگوں کو ہمارے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ اس پریقین نہیں کرتے جو ہم کہہ رہے ہیں۔ مودی اپنے کیے گیے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوئے ہیں مگر لوگ پھر بھی ان کا یقین کرتے ہیں۔’

میں نے ان سے پوچھا ایسا کیوں ہے؟

انھوں نے کہا ‘اس کی وجہ ہمیں بھی سمجھ نہیں آتی۔’

کانگرس کی اس بدترین کارکردگی نے راہل گاندھی کی قیادت پر سوالات اٹھائے ہیں اور بہت سے تجزیہ کار پہلے ہی تبدیلی کے نام پر ان سے مطالبہ کر رہے کہ وہ پارٹی کی سب سے بڑی پوزیشن سے مستعفی ہو جائیں مگر ماضی کی طرح یہ تمام مطالبات پارٹی کے باہر سے آ رہے ہیں اور ان کو پارٹی قیادت کی جانب سے رد کیے جانے کا امکان ہے۔

دلی میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ راہل گاندھی نے پارٹی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے۔ کانگرس کے سیاسی رہنما منی شنکر ائیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کانگرس اپنی قیادت پر سوال نہیں اٹھائے گی اور اگر راہل گاندھی نے استعفی دیا تو وہ اس کو قبول نہیں کرے گے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘قیادت پارٹی کی بری شکست کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کی چند دوسری وجوہات ہیں جن پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔’

لکھنؤ میں مقامی پارٹی ترجمان بیجندرا کمار سنگھ نے واضح کیا کہ ان کے خیال میں مسئلہ راہل گاندھی کی گرفت کا نہیں بلکہ پارٹی کے اندرونی اتنشار اور کمزور انتخابی مہم کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پارٹی کے ڈھانچے میں کمزوریاں ہیں۔ عہدوں کے لیے پارٹی کے اندر لڑائیاں ہیں۔ ہم انتخابی مہم میں بھی عوام کے پاس تاخیر سے پہنچے اور ہماری کوششیں بھی ناکام ہوئی ںجیسا کہ اترپردیش اور بہار میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ایک برا فیصلہ تھا۔’

ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو سب مانتے ہیں وہ ‘مودی’ کی ساکھ تھی۔

بیجندرا سنگھ کہتے ہیں’وزیر اعظم گزشتہ الیکشن میں کیے گیے اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے مگر وہ پھر بھی لوگوں کو اپنے حکومتی پالیسیوں کا یقیبن دلانے میں کامیاب رہے۔’

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ راہل گاندھی کو مودی کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سنہ 2014 کے انتخاب میں پارٹی کی بدترین شکست کے بعد جس میں اسے صرف 44 نشستوں پر کامیابی ملی تھی، راہل گاندھی کو تقریباً پارٹی سے نکال ہی دیا گیا تھا۔

پھر پارٹی کو چند ریاستی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور راہل گاندھی کو ‘عوام سے دور اور ناقابل رسائی’ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سوشل میڈیا پر ان کا غلطیاں کرنے والے بیوقوف اور نامعقول رہنما کے طور پر مذاق اڑایا گیا۔

ان پر نہرو خاندان سے ملنے والی موروثی سیاست پر بھی تنقید کی گئی اور وزیر اعظم مودی جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ راہل گاندھی پارٹی قیادت تک میرٹ پر نہیں پہنچے بلکہ موروثی سیاست کے سبب آئے ہیں۔

لیکن گزشتہ دو برسوں سے ان کا سیاسی گراف بہتر ہوا ہے، وہ ایک بہتر سیاسی رہنما بن کر سامنے آ رہے ہیں، ان کی سوشل میڈیا مہمات بہتر ہو گئی ہیں اور انھوں نے بھرپور اور پراثر انداز میں حکومت کی متنازع کرنسی پابندی کی پالیسی، روزگار کی مواقع کی عدم فراہمی، ملک میں بڑھتی عدم برداشت اور معاشی سست وری پر تنقید کرنا شروع کی ہے۔

وہ انتخابی مہم کے ایجنڈا کو لے کر جارحانہ انداز میں آگے بڑھتے دکھائی دیے اور دسمبر میں جب انھوں نے راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اہم ریاستی انتخابات میں فتح حاصل کی تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ انھوں نے پارٹی کو دوبارہ ایک نئی پہچان دلا دی ہے۔.

انڈیا

اور پھر فروری میں جب ان کی پرکشش شخصیت کی مالک بہن پریانکا گاندھی نے اترپردیش میں ان کی مدد کے لیے ان کا ساتھ دیا تو ایسا لگا کہ گاندھی خاندان اب کچھ کر کے ہی دم لے گا۔

ریاستی پارٹی عہدیدار وریندرا مدن کا کہنا ہے کہ ‘اگر آپ ہمارا منشور دیکھیں تو یہ سب سے اچھا ہے۔ جن پالیسوں کا ہم نے اعلان کیا تھا، جو وعدے ہم نے کیے تھے وہ سب سے بہترین تھے۔ لیکن ہمیں جو امید ووٹرز سے تھی، جو حمایت کی امید ہمیں تھی وہ نہیں ہوئی۔’

مدن کہتے ہیں کہ دلی میں اور ریاستی سطح پر پارٹی قیادت اگلے چند دنوں میں یہ جاننے کے لیے اجلاس بلائے گی کہ انتخابات میں کیا غلط ہوا۔

‘ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کے لیے کہاں خرابی ہوئی۔’

مگر ان کا کہنا ہے کہ بھلے انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں لیکن اس کا سوال ہی ہیدا نہیں ہوتا کہ پارٹی اپنی قیادت کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف راہل گاندھی ہی نہیں ہے جو ہارے ہیں، بہت سے اور رہنما بھی ہارے ہیں۔ الیکشن آتے جاتے ہیں آپ کبھی ہارتے ہیں اور کبھی جیتتے ہیں۔ آپ یاد کریں سنہ 1984 میں جب بی جے پی صرف دو سیٹوں تک محدود ہو گئی تھی؟ کیا انھوں نے دوبارہ کامیابی نہیں لی؟ ہم بھی واپس آئیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp