عمران خان نوازشریف والی غلطیاں نہ دہرائیں


موجودہ عالمی تناظر میں انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے سیاستدان عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر دھڑادھڑ منتخب ہو رہے ہیں۔ جس کی سب سے نمایاں مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو ایک غیر روایتی سیاستدان اور ان کے اکثر خیالات انتہا پسندی کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ اسی طرح کے غیر روایتی سیاستدان اب پاکستان سمیت کئی ملکوں میں برسر اقتدار ہیں۔ عمران خان کو بھی ایک غیر روایتی پاپولسٹ لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ حال ہی میں یوکرائن کے صدر Petro poroshenko کی جگہ ان کی نقل اتارنے والا کامیڈین  Volodymyr Zelenskyانتخابات جیت کر صدر بن گیا۔

اس کے برعکس بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کوئی نئی سیاسی جماعت نہیں ہے لیکن اس کے راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس ) کے انتہا پسندانہ خیالات پرمبنی ہندو مت بھارت کے آئینی سیکولر ازم سے بالکل متصادم ہے۔ نریندر مودی جو خود کو ایک معمولی چائے والے کا بیٹا کہتے ہیں بھی غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ مودی کا 2014 ء کے بعد دوسری بار پہلے سے زیادہ نشستیں جیت کر بھارت کے عام انتخابات کو سویپ کر جانا ان کا مسلمان اور پاکستان دشمن بیانیے کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

 مودی ایک انتہائی زیرک اور شاطر سیاستدان ہے اور لگتا ہے کانگریس کی گاندھی، نہرو موروثی سیاست اب آخری دموں پر ہے۔ اندراگاندھی کے پوتے راہول گاندھی اگرچہ وایانند سے جیت گئے ہیں لیکن اپنے آبائی حلقے امیتھی سے ایک ٹیلی ویژن اداکارہ کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق تاریخ میں مودی کا شمار پنڈت جواہر لال نہرو، اندراگاندھی اور اٹل بہاری واجپائی جیسے نیتاؤں میں ہو گا۔ پاکستان میں عام انتخابات کے دوران اینٹی انڈیا بیانیہ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں اپنایاجاتا کیونکہ وطن عزیز میں انتخابات کے دوران مقامی سیاسی، انتظامی اور علاقا ئی مسائل زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

بی جے پی کی 2014 ء میں برسر اقتدار آنے والی حکومت گزشتہ پانچ برس میں بھارت کے عام آدمی اور کسانوں کی بہتری کے حوالے سے اپنے وعدے وفا نہیں کر پائی لیکن گجرات کے جلاد جس نے وہاں بطور وزیراعلیٰ ہزاروں مسلمانوں کو تہہ و تیغ کر دیا تھا، پاکستان اور مسلمان دشمن حکمت عملی کو بڑی کامیابی سے چلایا۔ فروری میں مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کا واقعہ جس میں چالیس بھارتی سکیورٹی اہلکار خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے اور جس کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی تھی۔

اس تنظیم کا تعلق مبینہ طور پر پاکستان سے ہے لیکن پلوامہ کے واقعہ کی منصوبہ بندی اور اس میں سہولت کاری کا پاکستان کے ساتھ کوئی ناتا نہیں جوڑا جا سکا۔ اس کے باوجود مودی اور ا س کے انتہا پسند مشیروں نے واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر تھونپ دی۔ یہ الگ بات ہے کہ حال ہی میں چین نے اقوام متحدہ کی طرف سے جیش محمد کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کو ویٹو نہیں کیا اور اب یہ تنظیم ہر لحاظ سے غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔

اس تناظر میں نریندر مودی نے خود کو بھارت کا چوکیدار ہونے کا لقب دیا اور اس نے پلوامہ واقعے کے چند روز بعد ہی بھارتی ائیر فورس کے مگ 21 طیاروں کے ذریعے مانسہرہ کے قریب بالا کوٹ میں یہ جواز بنا کر کہ یہاں جیش محمدکا ہیڈ کوارٹرز ہے، بمباری کی۔ غالبا ًاس بمباری کا مقصد بھارتی رائے عامہ اور پاکستان کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس کے باوجود کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں ضرورت پڑنے پر بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرنے میں کوئی امر مانع نہیں رکھے گا۔

 جب سے پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں بنی ہیں، کارگل کے موقع پر بھی بھارتی ائیرفورس کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اگرچہ اگلے روز ہی پاکستان نے بھارتی مگ طیارے کو گرا کر اس کے پائلٹ ا بھی نندن کو زندہ گرفتار کر لیا اور بعدازاں جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے واپس بھارت کے حوالے کر دیا۔ لیکن اس خیر سگالی کا پاکستان سے نفرت کے جذبے سے سرشار بھارتی سرکار نے کوئی مثبت اثر نہیں لیا۔

 اس سارے واقعے کی بنا پر جس میں بھارتی ائیرفورس کی بری طرح ٹھکائی ہوئی، بھارتی میڈیا نے بڑا زہریلا اور پاکستان مخالف رول ادا کیا اور عوام کو باور کرایا کہ بھارتی فضائیہ کی پٹائی نہیں ہوئی بلکہ اس نے تو دشمن کو سبق سکھا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بجا طور پر نریندرمودی کو مبارکباد دی اور وہ کچھ عرصہ پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ مودی کی کامیابی سے بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔

 زمینی حقائق خان صاحب کی اس خوش فہمی سے لگا نہیں کھاتے۔ یہ درست ہے کہ بھارتی انتخابات کے نتائج کے عین ایک روز قبل کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج میں خوشگوار ماحول میں غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی لیکن ہنوز دلی دوراست۔ کشمیر میں بے پناہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ تازہ واقعہ میں حریت لیڈر ذاکر موسٰی کو القاعدہ کا ایجنٹ قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان کی شہادت کے خلاف سر ینگر سمیت کئی علاقوں میں ہڑتال ہوئی اور صورتحال بے قابو ہونے پر سرینگر میں کرفیو لگانا پڑ گیا۔

 سینکڑوں حریت پسند کشمیری لیڈر سرینگر یا دہلی کی تہاڑ جیل میں بند کر دیے گئے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنا بھی مودی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ ایودھیا کے مقام پر انتہا پسند ہندو پہلے ہی بابری مسجد کو شہید کر چکے ہیں وہاں رام مندر بنانا ان کے پروگرام میں شامل تھا۔ اسی طر ح بھارت میں گاؤماتا کو ذبح نہ کرنے کے قانون کے ذریعے مسلمانوں کو مزید تنگ کرنے کا پروگرام ہے۔

بھارت کے سترہ کروڑ سے زائد مسلمان انتخابات میں کوئی قابل قدر نشستیں حاصل نہیں کر سکے اور بی جے پی انھیں حمایت نہ کرنے کی سزا بھی دے گی۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ سلسلہ جنبانی از سرنو شروع کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور ایسا صرف برابری کی بنیاد پر اور کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز نہ کر کے ہی ہو۔ میاں نوازشریف جب وزیراعظم تھے تو پانچ سال پہلے مئی 2014 ء میں مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے نئی دہلی پہنچے تو مودی نے بطور میزبان انھیں جی آیاں نوں کہا لیکن اس کے ساتھ ہی شکایات کا انبار لگا دیا۔

 شاید میاں صاحب نے سوچا ہو گا کہ واجپائی کی طرح مودی کو بھی جپھی ڈالی جا سکتی ہے لیکن انتہا پسند مودی اور شاعر واجپائی میں بعد المشرقین تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب واجپائی پاکستان سے تجدید تعلقات کے لیے فروری 1999 میں بس یاترا کے ذریعے لاہور آئے تھے تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو صلح کی یہ باتیں ایک آنکھ نہ بھائیں اور اس کے فوراً بعد کارگل کی ناکام مہم جوئی کے ذریعے اس پراسیس کو سبوتاژ کر دیا لیکن مودی کی تقریب حلف برداری میں کورا جواب ملنے کے باوجود میاں صاحب مودی کے ساتھ جپھی ڈالنے کے لیے کوشاں رہے اور دسمبر 2015 ء میں میاں صاحب کی نواسی کی شادی کی تقریب کے موقع پر نریندر مودی اچانک جاتی امراء نازل ہو گئے۔

میاں صاحب ذاتی تعلقات بنانے کی جستجو میں یہ بھی بھول گئے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے بڑے بنیادی اختلافات ہیں اور بی جے پی کا فلسفہ کیا ہے۔ اسی موقع پر جسے ستم ظریفی کہا جا سکتا ہے بلاول بھٹو نے نعرہ لگایا تھا مودی کا جو یار ہے غدار ہے۔ امید ہے کہ خان صاحب میاں نوازشریف والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).