پاکستان کو فوج کی کالونی نہ بنایا جائے


شمالی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف فوجی کارروائی میں آئی ایس پی آر کی اطلاع کے مطابق تین افراد جبکہ پی ٹی ایم کے مطابق پانچ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی درجن لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ علاقے میں کرفیو نافذ کردیاگیا ہے اور مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔ غیر جانبدار طریقے سے اصل صورت حال جاننے کے تمام راستے مسدود کئے جا چکے ہیں۔ یہ ہتھکنڈا پاکستان کے آزاد علاقوں کو فوج کی کالونی بنانے کے مترادف ہے۔ اس طریقہ کار اور پر تشدد طریقہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

اس سانحہ سے پوری قوم حیران و پریشان ہے۔ تاہم ملک کی منتخب حکومت نے کوئی بیان دینے یا صورت حال واضح کرنے کی فوری ضرورت محسوس نہیں کی۔ آج سہ پہر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ’ پی ٹی ایم کے کارکنان نے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں فوج کی خارقمر چیک پوسٹ پر گزشتہ روز گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کیا تھا۔ اس جھڑپ میں تین افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے جن میں پانچ فوجی بھی شامل ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے اس واقعے کے بعد مظاہرین کی قیادت کرنے والے پی ٹی ایم کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت دس افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ جبکہ محسن داوڑ تاحال روپوش ہیں‘۔

اس کے برعکس پشتون تحفظ موومنٹ کے ذرائع نے پانچ افراد کے جاں بحق اور 45 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے اور کہا کہ پر امن مظاہرین پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی۔ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے ایک ٹوئٹ پیغام میں میں کہا ہے کہ اتوار کو پیش آنے والا واقعہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دی جانے والی دھمکی، آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے، کا تسلسل ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’گزشتہ کئی دنوں سے آئی ایس پی آر کی سوشل میڈیا ٹیمیں آج پیش آنے والے حملے کی راہ ہموار کر رہی تھیں‘۔ انہوں نے اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی ایم اپنی پرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھے گی۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے متعدد ٹوئٹ پیغامات میں اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور تصادم سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرادری نے لاڑکانہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ قومی اسمبلی کا منتخب رکن کیوں کر کسی فوجی چوکی پر مسلح حملہ میں ملوث ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بھی تصادم کی بجائے بات چیت اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے صدر اختر مینگل نے ایک ٹوئٹ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں پر حملہ کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک پر امن مظاہرے پر حملہ کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پر امن احتجاج کرنے والوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے تشدد استعمال نہ کیا جائے‘۔ اپوزیشن اور اختر مینگل کی مذمت کے باوجود حکومت یا وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے رات گئے تک اس سنگین اور افسوسناک واقعہ پر کسی قسم کا ردعمل دینے، تحقیقات کروانے یا اس معاملہ کو سول اختیار کے تحت لانے کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تھا۔

فوج ملک کے شہریوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کا اختیار بہر صورت منتخب حکومت کی اجازت اور نگرانی میں ہی استعمال کرنے کی مجاز ہو سکتی ہے۔ ملک کے ایک دور دراز علاقے میں ایک مسلح تصادم کے بعد وہاں کرفیو نافذ کرنے اور مواصلات کے ذرائع بند کرنے کا فیصلہ انتہائی سنگین اقدام ہے اور اس بارے میں قوم کو یا تو آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز سے معلومات ملی ہیں یا غیر مصدقہ ذرائع سے پی ٹی ایم کی طرف سے معلومات فراہم ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر فوج اور پی ٹی ایم کے حامی گروپ موجود ہیں جو صورت حال پر اپنے مفاد کے مطابق تبصرے اور معلومات فراہم کررہے ہیں۔ ان حالات میں منتخب حکومت کی خاموشی اور بے بسی ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے۔ عمران خان خود کو قبائیلی علاقوں کا ہمدرد قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ان علاقوں کی صورت حال اور لوگوں کے مسائل کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ لیکن شمالی وزیر ستان میں فوج کی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں پر ان کی خاموشی ان کے دعوؤں کی تائید نہیں کرتی۔

حکومت کی خاموشی سے ان اندیشوں کی بھی تائید ہوتی ہے کہ ملک کی کوئی منتخب حکومت سیکورٹی معاملات میں فوج کی رہنمائی یا نگرانی کرنے کی اہلیت و ہمت نہیں رکھتی۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے سول حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہی تھیں اور اب ایک ایسی حکومت جس کا سربراہ خود مختاری اور عوام کو اعتماد میں لینے کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے، انتہائی اشتعال انگیز اور افسوس ناک واقعہ پر جزو معطل ہونے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ پاکستان نے اختلاف رائے کی بنیاد پر ’غدار اور دہشت گرد‘ قرار دے کر آواز بلند کرنے والے لیڈروں اور لوگوں کو کچلنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف پروپیگنڈا مہم اور دھمکیوں کے بعد اب براہ راست حملہ کرکے متعدد لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار قبائیلی علاقوں کے عوام میں بداعتمادی اور بدظنی میں اضافہ کرے گا۔ اگر پی ٹی ایم کی سرکوبی کے نام پر قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر جنگ کے حالات پیدا کئے گئے تو یہ صورت حال ایک طویل اور تکلیف دہ تصادم کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اہل پاکستان کو اس کی بھاری سیاسی اور معاشی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ کی ایک پریس کانفرنس میں یہ اطلاع ملنے کے بعد ہوشمندانہ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ ایک منتخب رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ کیسے فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کرسکتا ہے۔ اگر تشدد ہؤا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن پر امن شہریوں، سیاسی کارکنوں کے خلاف بھی تشدد نہیں ہونا چاہئے۔ پر امن احتجاج کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ آپ پی ٹی ایم سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ ان سے بحث کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ فاٹا کے نوجوان سیاست دانوں سے مذاکرات نہیں کریں گے اور اگر آپ شکایتوں کا ازالہ نہیں کریں گے یا ان کی غلط فہمیاں دور نہیں کریں گے تو پھر ہمیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو مشرف کے دور میں بلوچستان میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایوب آمریت کے بعد بنگلہ دیش میں کیا ہؤا۔ اگر ہم حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والے اپنے ہی شہریوں ، بچوں اور سیاست دانوں کو غدار کہنا شروع کردیں گے ، تو ہم ایک نہایت خطرناک راستے کی طرف گامزن ہوں گے‘۔

مریم نواز نے بھی متعدد ٹوئٹ پیغامات میں ان خیالات کی تائید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’ ہر شہری کی زندگی قیمتی ہے اور اس کا خون مقدس ہے۔ اگر خون بہایا گیا ہے تو حقائق بھی سامنے لائے جائیں۔ محبت، امن اور افہام و تفہیم، ہتھیاروں سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ کیا ہم آوازیں دبانے اور احتجاج کچلنے کی پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا نہیں کرچکے ہیں؟ اللہ ہم پر رحم کرے‘۔ ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ’ داخلی کشیدگی کے ہوتے پاکستان برداشت کرنے والا معاشرہ نہیں بن سکتا۔ اگر دونوں طرف پاکستان کے ہی بیٹے ہیں۔ تو سیاسی اور صحافتی حلقوں کو ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘۔

پاکستان کی دو اہم اپوزیشن پارٹیوں کے نوجوان لیڈروں کی طرف سے کی جانے والی یہ باتیں ہی قومی پالیسی کی بنیاد ہونی چاہئیں۔ اس سے صرف نظر کا کوئی رویہ بھی قومی مفاد اور ملکی سلامتی کی حفاظت کرنے میں معاون نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم اور پاک فوج کے سربراہ پی ٹی ایم کے مطالبوں کو جائز اور درست قرار دیتے ہیں۔ تاہم فوج کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی ایم کے کچھ عناصر کو غیر ملکی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم عدم تشدد کی بنیاد پر آئینی حدود میں رہتے ہوئے حقوق کی جدوجہد کرنے والی کسی تنظیم کے خلاف پر تشدد کارروائی کا کوئی جواز تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پی ٹی ایم کے بعض لوگوں پر غیر ملکی ایجنسیوں سے رقم لینے یا کسی ملک دشمن ایجنڈا پر کام کرنے کا شبہ ہے تو ان لوگوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلا کر انہیں سزا دلوائی جائے۔ لیکن اس شبہ کی بنیاد پر پریس کانفرنسوں اور سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے نوجوانوں کی ایک تنظیم کو ملک دشمن یا غدار قرار دینے سے ایک نئے فساد اور تصادم کا راستہ ہموار ہو گا۔

کسی تنظیم یا اس کے لیڈروں کی سیاسی سرگرمیوں کے قانونی ہونے کا جائزہ لینا ملک کی عدالتوں کا کام ہے۔ اسی طرح ان عناصر کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات طے کرنا ملک کی منتخب حکومت اور سیاسی پارٹیوں کا شعبہ ہے۔ فوج کو اس معاملہ میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کو معاشی بحران سے لے کر متعدد سرکش گروہوں کی ناراضگی کی صورت میں پہلے ہی سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ اب پشتون نوجوانوں کے ایک مقبول گروہ کو طاقت کے زور پر دبانےکی کوشش ایک نئے فساد کو جنم دے گی۔

پاک فوج کی حب الوطنی اور قوم و ملک کے لئے قربانیوں سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن یہ اعتراف کرنے کے بعد بھی اسے ملک کے بعض حصوں کو اپنی کالونی بنانے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ فوج اسی وقت اپنے اختیار اور مینڈیٹ سے تجاوز کرتی ہے جب ملک کی پارلیمنٹ کوجزو معطل بنا کر سیاسی ڈرامہ کا اسٹیج بنا دیا جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں رونما ہونے والے سانحہ پر پارلیمنٹ پر غور ہونا چاہئے۔ فوج قومی اسمبلی کے زیر حراست رکن کو فوری طور سے رہا کرے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی شکایت ہے تو مجاز سول اداروں کے ذریعے اس کا ازالہ کیا جائے۔

حکومت، فوج اور عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان اب مزید انتشار اور افتراق کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس ملک کو لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے مثبت تبادلہ خیال کے ذریعے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ قوم کو ایک بار پھر اس وقت پچھتانے کا موقع ملے جب چڑیا کھیت چگ کر جا چکی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali