سیاستدان بندہ گڑ سے مارتے ہیں


ہمارے لئے یہ بات ماننی مشکل ہے کہ سیاست دان ہی ملک و قوم کو جوڑ کر رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں شروع سے یہ بیٹھا ہوا ہے کہ جب بھی کسی جگہ شورش برپا ہو تو ایک عظیم فاتح دگڑ دگڑ گھوڑے دوڑاتا ہوا آتا ہے اور باغیوں کی ایسی سرکوبی کرتا ہے کہ ان کے سروں کے مینار بنانے پڑ جاتے ہیں۔ روایت کے مطابق نادر شاہ درانی سے اس کے پسر عزیز کے نکاح کے وقت شجرہ طلب کیا گیا۔ یعنی کمال دیکھیں کہ شہنشاہ ہند نے بیٹی پہلے دی اور دولہا میاں کا حسب نسب بعد میں بوقت نکاح دیکھا۔ مقصد اسے خفیف کرنا تھا کہ دیکھو ہم صاحبقراں امیر تیمور گورگاں کی نسل سے ہیں، تم کیا ہو، گڈریے؟ اس پر نادر شاہ نے قلم کا جواب تلوار سے دیتے ہوئے اپنا شجرہ نادر شاہ درانی ابن شمشیر ابن شمشیر بیان کیا تو شہنشاہ ہند اور درباریوں کی تسلی ہو گئی۔

اب ہم یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ جب بھی شادی بیاہ، سماجی بے چینی، یا کھانے میں نمک زیادہ پڑ جانے کا مسئلہ درپیش ہو تو اس کا حل تلوار یا اس کا لائسنس نہ ہونے کی صورت میں ڈنڈے سے نکالا جاتا ہے۔ جبکہ سیانے لوگوں کے نزدیک جنگ آخری مرحلہ ہوتی ہے جس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ اسی سے وہ مشہور یورپی ضرب المثل نکلی ہے کہ جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

بات یہ ہے کہ سیاست دان حرفوں کے بنے ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہوتا ہے کہ جب بندہ گڑ سے مارا جا سکتا ہو تو اسے زہر کیوں دیا جائے۔ کوئی نہایت انتہا پسند شخص بھی نہایت احمقانہ قسم کے مطالبات کی فہرست ہاتھ میں پکڑ کر پسر جائے تو ایک سیاست دان اس سے بول بچن کر کے نہ صرف اسے مطمئن کر کے اٹھا دیتا ہے بلکہ اس کے مطالبات ماننے کی بجائے اپنے مطالبات منوا لیتا ہے۔ اور کمال یہ کہ پسرنے والا شخص نہایت خوش بھی ہو جاتا ہے کہ اس نے کامیاب مذاکرات میں اس عیار سیاست دان کو دھول چٹا دی ہے۔

آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص توپ کا مطالبہ لے کر آیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مذاکرات کے بعد اسے بندوق نہ سہی پستول کا لائسنس تو مل ہی جائے گا، مگر متعلقہ سیاست دان نے جو اتفاق سے پیر بھی تھا، اسے تعویذ دے کر مطمئن کر دیا کہ بچہ توپ کی کیا ضرورت ہے، یہ تعویذ تیری حفاظت بھی کرے گا اور دشمنوں کو نابود بھی کر دے گا۔

سیاست دان اتنے مکار ہوتے ہیں کہ یہ کام وہ دوسرے سیاست دانوں کے ساتھ بھی کر گزرتے ہیں۔ اگر شیخ مجیب کے چھے نکات بھی دیگر سیاست دانوں کے حوالے کیے جاتے تو ان میں سے کم از کم چار پانچ سے تو وہ دستبردار ہو جاتا اور اپنی مکمل فتح کا اعلان بھی کرتا۔ سیاست دانوں کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بندوں کو ہینڈل کرنا جانتے ہیں۔ جہاں کسی کو بے وقوف بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، اسے سنہرے خواب دکھا کر بے وقوف بنا دیتے ہیں۔ جہاں سودے بازی کی ضرورت ہوتی ہے، ادھر ایسا سودا کرتے ہیں کہ تمام فریق خوش خوش اٹھتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ وہ کیسے ہم جیسے ”ٹکے ٹکے کے موالیوں مصلیوں“ کے گلے لگ کر ان سے ووٹ نکلوا لیتے ہیں اور مطلب نکلنے کے بعد اگلے الیکشن تک ان کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔

تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ ہر درد کا حل دو گولی ڈسپرین سے کرنے کی بجائے اس درد کو بااختیار سیاست دانوں کے سپرد کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ بتا چکی ہے کہ بعض سیاست دان گاڈ فادر ہوتے ہیں۔ وہ ایسی آفر کریں گے جو اگلا ریفیوز ہی نہیں کر سکے گا اور سب خوش خوش گھر جائیں گے کہ ہمارا فائدہ ہو گیا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar