غربت کا خاتمہ اور رٹگر بریگمین کی کتاب ”یوٹوپیا فار ریالسٹس“


آج کا مضمون میڈیسن کے دائرے سے باہر ہے۔ یہ اکنامکس کے دائرے میں ‌ آنے والا رٹگر بریگمین کی کتاب ”یوٹوپیا فار ریالسٹس“ کے بارے میں ‌ ہے۔ یہ کتاب ہم آج کل بک کلب میں ‌ پڑھ رہے ہیں۔ اگر یہ کہوں ‌ کہ اس کتاب نے میرے ذہن کو کافی جھٹکے دیے ہیں ‌ تو کچھ غلط نہیں ‌ ہوگا۔ کچھ باتیں ‌ تھیں ‌ جن پر میں ‌ نے ہمیشہ سے یقین کیا تھا۔ مثلاً غریبی کو کیسے دور کیا جائے؟ ہمیشہ سے یہی سنا تھا کہ بہتر ہے کہ ہم کسی کو مچھلی پکڑنا سکھا دیں بجائے اس کے کہ ہم ان کو مچھلی دیں۔

اگر ہم نے کسی کو مچھلی پکڑنا سکھا دی تو ان کو ہمیشہ کے لیے کھلا پلا دیا۔ اس کے علاوہ لکھاری‌ نے ہفتے میں 15 گھنٹے کام کرنے کے بارے میں ‌ لکھا ہے۔ دیکھیے آج میموریل ڈے ہے۔ مجھے یاد بھی نہیں رہا کہ آج نیشنل ہالی ڈے ہے۔ ہر پیر کی طرح‌ میں ‌ صبح سویرے اپنے مریض دیکھنے کلینک پہنچ گئی۔ ہمیں ‌ ہفتے میں 40 سے 80 گھنٹے کام کرنے کی پکی عادت ہے۔ پہلے سے ہی مریضوں ‌ کو تین مہینے بعد کی اپوائنٹمنٹ دینی ہوتی ہے۔ صرف 15 گھنٹے میں ہمارا سارا کام کیسے پورا ہوسکے گا؟ اگر ہم کام نہیں ‌ کریں ‌ گے تو اپنے وقت کے ساتھ کیا کریں گے؟ میری اپنی ایک تھیوری ہے کہ دنیا میں ‌ مختلف تہواراور مذہبی رسومات انسانوں ‌ کو مصروف رکھنے کے لیے ایجاد کیے گئے تھے۔

یوٹوپیا فارریلسٹس میں ‌ رٹگر بریگمین نے غریبی سے لڑائی پر پچھلے 150 سال سے جاری کافی ساری ریسرچ اسٹڈیز اور ان کے نتائج پیش کیے ہیں جو کہ کافی حیرت انگیز ہیں۔ لکھاری کہتے ہیں کہ ہر کسی کو مفت پیسے ملنے چاہئیں۔ لندن میں ‌ 2009 میں ‌ ایک تجربہ کیا گیا جس میں ‌ 13 بے گھر افراد جو کہ اسکوائر مل میں ‌ باہر سردی میں ‌ زمین پر سوتے تھے، ان کے تمام جرمانے اور فیسیں معاف کردی گئیں اور ان سب کو تین ہزار پاؤنڈ مفت دیے گئے جن کے لیے ان سے کچھ کرنے کا تقاضا نہیں ‌ کیا گیا۔

ایک سوشل ورکر نے کہا کہ مجھے ان لوگوں سے کچھ زیادہ توقعات نہیں تھیں۔ لیکن ان افراد کی خواہشات کافی سادہ سی تھیں۔ جیسا کہ ٹیلیفون، ڈکشنری، آلہ سماعت وغیرہ۔ ایک سال گزر جانے کے بعد انہوں ‌ نے صرف 800 پاؤنڈ خرچ کیے تھے۔ سائمن کی مثال لیں جو بیس سال سے ہیرؤنچی تھا۔ پیسوں سے اس کی کایا پلٹ گئی۔ سائمن نے نشہ چھوڑدیا اور باغبانی کی کلاسیں لینا شروع کیں۔ وہ اپنا خیال رکھنے لگا، نہاتا دھوتا، شیو کرتا اور اب اپنے گھر واپس جانے کے لیے سوچنے لگا۔

ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد 13 میں ‌ سے 7 کے سر پر اپنی چھت تھی، انہوں ‌ نے کلاسیں لینا شروع کیں، کھانا پکانا سیکھا، ری ہیب میں ‌ گئے اور اپنے خاندانوں ‌ سے میل جول بڑھایا اور مستقبل کی طرف دیکھنے لگے۔ ہاتھ میں پیسہ ہونے سے ان بے گھر افراد نے خود میں ‌ کچھ طاقت محسوس کی۔ سوشل ورکرز نے کہا کہ اتنے سالوں سے ان کے چالان کرنے، ان کو جیلوں ‌ میں ‌ ڈالنے، سزائیں دینے پر 50 ہزار پاؤنڈ خرچ ہورہے تھے اور اس کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہورہا تھا۔

جنوب ایشیا سے زیادہ غریبی اور بدحالی کو کون سمجھتا ہوگا؟ شدید غریبی ہمارے چاروں ‌ طرف پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ غریب ہونے میں غریبوں ‌ کا اپنا قصور ہے اور غریب آدمی سے بدتمیزی سے بات کرنا ان کا پورا حق بنتا ہے۔ غریبی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے اور امریکہ میں ‌ جو ویلفئر سسٹم ہیں وہ اپنے طریقہ کار کی وجہ سے غریبوں ‌ کو مستقل غریب اور مجبور رکھنے میں ‌ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیوٹ گینگرج ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدراتی امیدوار تھے۔

ان کا ایک قول ہے کہ تمام مسائل کا حل ایک نوکری ہے۔ کیا حقیقت اتنی ہی سادہ ہے؟ نیوٹ گینگرج ایک سفید فام آدمی ہیں جو خود ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ امریکہ میں ‌ موجود نسلی اور صنفی امتیاز کے نتیجے میں ‌ فائدہ پانے والے افراد میں ‌ سے ہیں۔ نیوٹ گینگرج ان افراد کی جدوجہد کو کس طرح‌ سمجھ سکتے ہیں جو غریب گھر میں پیدا ہوئے ہوں، ان کے ماں باپ مر چکے ہوں، یا وہ اکیلی حاملہ خواتین ہوں، ذہنی مریض یا پھر حادثوں ‌ کا شکار ہوں جس کے بعد نوکری اور ہیلتھ انشورنس سب کچھ چھن گیا ہو؟

اس کتاب میں ‌ فرانسسی انقلاب کے بعد برطانیہ میں، چیروکی امریکی ریڈ انڈینز میں اور انڈیا میں ‌ کیے گئے تجربات کا ذکر ہے جن میں ‌ تمام شہریوں ‌ کو مفت میں ‌ اتنے پیسے دینے جس سے ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوسکیں یعنی ان کے سر پر چھت ہو، جسم پر لباس اور وہ کھانا کھا سکتے ہوں تو ان کی زندگیاں سدھر گئیں۔ بچے پابندی سے اسکول جانے لگے، لوگوں ‌ کی صحت بہتر ہوئی، گھریلو تشدد میں ‌ کمی واقع ہوئی، نفسیاتی بیماریوں میں ‌ کمی ہوئی اور جرائم بھی کم ہوگئے۔

بک کلب میں ‌ موجود افراد کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے۔

میں : اس کتاب کو پڑھ کر میرے پرانے عقائد ہلے ہیں۔ کیونکہ میری اپنی زندگی بھی ایک کامیاب کہانی ہے جس میں ‌ کافی کم سہاروں ‌ کے ساتھ، بہت سارے چیلنجز کے باوجود میں ‌ نے خود کو اور اپنے خاندان کو مشکل حالات سے باہر نکال لیا اس لیے میں ‌ یہی سمجھتی تھی کہ محنت کرنے سے سب لوگ ایسا کرسکتے ہیں۔

ہال اسپیک:

You are an exception!

میں : جی ہاں، میں ‌ بھی اس بات کو سمجھ رہی ہوں اور میری کوشش ہے کہ دوسرے افراد کی جدوجہد اور ان کے حالات کو اپنے ساتھ نہ ناپوں کیونکہ ہر دو انسانوں کی صورت حال مختلف ہے۔

ہال اسپیک: آج کل کے امریکہ میں ‌ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ڈپریشن کے دور میں ‌ ہمارے والدین نے کیا مشکل حالات دیکھے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ‌ کبھی کبھار ہمارے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور ہم بھوکے رہ جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اور زندگیاں نسبتاً آسان ہوئی ہیں۔ رٹگر بریگمین نے بھی کتاب میں ‌ یہی لکھا ہے کہ دنیا میں لوگوں ‌ کی زندگی اور رہنے سہنے میں ‌ بہتری ہوئی ہے۔

کرس کوگن: ٹیکنالوجی میں ترقی سے کافی ساری چیزیں اب مفت میں ‌ ملنے لگی ہیں جن کے لیے پہلے زمانے میں پیسے دینے پڑتے تھے۔
میں : جی ہاں۔ جیسے اب انسائکلوپیڈیا خریدنے کے بجائے وکی پیڈیا سے کچھ بھی معلوم کرسکتے ہیں۔

کرس کوگن: ہاں، میں نے خود کتنے مہنگے انسائکلوپیڈیا خریدے تھے اس لیے مجھے یہ معلوم ہے۔
میں : وقت کے ساتھ ہمارے پڑھنے کا طریقہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ پہلے کتاب شروع سے آخر تک پڑھتے تھے اور اب اگر میرے ذہن میں ‌ کوئی بھی سوال آئے تو اس کو گوگل کرسکتے ہیں۔

سوزن کوگن: افراط زر بھی وقت کے ساتھ بڑھا ہے اور اس سے لوگوں ‌ کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔
کلنٹ: مجھے افراط زر کے بارے میں ‌ کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہے۔ میں ‌ ایک مڈل کلاس میں ‌ پیدا ہوا، کالج گیا اور اب میری اچھی نوکری ہے۔ میں ‌ نے اپنی زندگی میں ‌ کبھی غریبی یا مشکل حالات نہیں دیکھے اس لیے میں ‌ بھی اس کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2