حضور والا خیال کیجیے، وقت بدل چُکا ہے


حضور وقت بدل چُکا ہے، پہلے قوم کو اعتماد میں تو لیجیے۔ عوام کی حالت کا اندازہ تو سب کو ہو رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر آج دوبارہ انگلستان سرزمین پاکستان پر قبضہ کرنے آئے کہیں یہ قوم اس کے ساتھ نہ ہو لے، کیا نہیں لگتا کہ اس وقت مغلوں کے برصغیر سے بھی برے حالات چل رہے ہیں۔ پھر کس کس کو غدار لکھیں گے۔ اب کہیں لگتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی طرح دوبارہ کوئی لڑنے کو تیار ہوگا، ویسے ہی ہوگا کہ دلی سے مراٹھا تک چند لوگ اٹھیں گے پھر مارے جائیں گے۔ اور ناکام تاریخ لکھی جائے گی۔

رمضان کا مہینہ چل رہا ہے خدارا ذرا اپنے شہر کی سڑکوں اور مساجد کو شام کے وقت افطاری پر دیکھ لیا کیجیے کہ بھوک کس قدر زیادہ ہوچکی ہے۔ دیکھا ہے کبھی ان سیاسی مذہبی جلسوں میں بریانی و پلاؤ کے لیے امڈ آئی ہوتی ہے۔

کوئی بھی تاریخ اٹھا لیں۔ عوام اس حاکم کا ساتھ دیتے ہیں جو عوام کے لیے بہتری کرے۔

ابتدائی تاریخ اسلامی میں جب مسلمانوں نے عرب، روم، فارس، خراسان تک حکومتیں قائم کیں تو ان میں سے ایک وجہ وہاں کے عوام اپنے حاکموں سے تنگ تھے۔ حکمران اس وقت اپنے لیے عیش وعشرت کے ساتھ جی رہے تھے، مذہبی رہبائیت ان کی محافظ بن چکی تھی، رعایا فقط غلام تھی، ملازم پیشہ افراد صرف فوجی تھے، حاکم نہ صرف بادشاہ تھے بلکہ خدا تصور ہوتے تھے۔

عوام کو نئے مذہب امن کی تلاش تھی، اور اس حکومت کی تلاش تھی جس میں ان کا کھویا ہوا انسانی مقام ملتا۔ بغیر کسی بحث و تمحیص کے اسلام کو انہوں نے ہر لحاظ سے من وعن قبول کر لیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ تلواروں اور جنگوں سے مذاہب پھیلے تو نقطہ نظر یہ بھی درست ہے سوشلزم کی بنیاد بھی انقلاب کے نام پر لاکھوں انسانی جانوں کی ہلاکت پر ہوئی اور موجودہ جمہوریت بھی اربوں لوگ نگل کر آج صاف ستھری کہلائی جا رہی ہے۔ جمہوری و سرمایہ دار چیمپئینز یورپ نے دنیا پر قبضے بھی کیے، تاریخ کی دو بڑی عالمی جنگوں میں موجودہ جمہوری چیمپئین یورپ کا کردر بھلا کوئی نظر انداز کرسکتا ہے۔

امریکہ جس طاقت کو حاصل کر رہا ہے اس کے پیچھے بھی لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ خیر موضوع اور ہے وہ قوم کا اپنی حکومت پر اعتماد۔ اگر نہیں تو پھر مسئلہ ہے۔ یورپ کی جمہوریت آج جس وجہ سے کامیاب ٹھہری ہے وہ عوام ہے اور عوام کو دی جانے والی دنیا کی سہولیات، آسائشیں اور عزت۔ کبھی سنا ہے کہ یورپ پر کوئی حملہ کرنے کا سوچ رہا ہو۔ کہیں سے کوئی دھمکی یا بیان۔ نہیں نا۔ تو یہ ملک کیوں۔ ہمارے ممالک کیوں ؟

آپ دیں بھی کچھ نہیں اور قربانی بھی مانگیں، حمایت کے بھی طلبگار ہوں بالکل ملے گی مگر مجبوروں کی حمایت جعلی ہوگی۔ جعلی حمایت تو نقصان دہ ہوتی ہے۔

اے وقت کے حاکم خدارا رحم کیجیے اس قوم پر، اسے مت خاک و خوں میں نہ نہلائیے۔ بھوکوں کی مدد کیجیے، ناراض لوگوں کی ناراضگی دور کیجیے۔ جس مادر وطن کے آپ بیٹے ہیں یہ بھی اسی کے بیٹے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ غلطی پر ہوں آپ انہیں منائیے ورنہ ادھر ادھر جائزہ لیتے رہیے جس قدر آپ اپنا اعتماد بحال کرتے کرتے ستر سال لگا چکے ہیں وہ آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

آپ دورے کرنے نکل پڑے کہیں ایسا مقام تو بتائیے جہاں آپ کو شکایات نہ ملی ہوں، آپ کے پاس یقیناً سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے، کیا کہیں تبدیلی نظر آئی۔ اچھا تبدیلی چھوڑیں آپ منصف ہو کر بتائیں کیا عوام کو وہ درست انسانی حقوق درست مل رہے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے، جیسا کہ آپ کے بیٹوں یا میاں صاحبان و دیگر ذی وقاران ملت کی اولادوں کو برطانیہ و امریکہ میں مل رہے ہیں اس سے نصف بھی اگر ملیں تو سمجھیے قوم اس وطن سے راضی ہے۔

سوشل میڈیا اٹھائیے اور ذرا جائزہ لیجیے کہ نوجوان کس جگہ ٹھہرے ہیں، بلاشبہ آپ کے کیے گئے سروے درست ہوں گے مگر ان سروے کے پیچھے آپ کے بنے گئے اکاونٹس کو بھی ہر کوئی جانتا ہے۔ اے وقت کے حاکم دور بدل چُکا ہے ذرا جائزہ تو لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).