میں نے ممی کی ڈائری کیوں لکھی؟


اگر تین سال پہلے مجھ سے کوئی پوچھتا کہ میری قابلیت کیا ہے تو میں کہتی ”ممی“۔ میرا کام، میری نوکری، ذمہ داری، فرض میرا ہنر میری مہارت سب کچھ میرا ممی ہونا ہی تھا۔ چونکہ بارہ سال میں نے صرف اور صرف ممی ہڈ mommyhood کو دیے ہیں۔ صرف ممی بننا سیکھا اور صرف اسی میں مہارت حاصل کی۔ کیا میں ایک ایکسپرٹ ممی بن سکی؟ اس بات کا جواب تو وقت دے سکے گا، میں نہیں۔ چونکہ ماں اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرے یا ناکام اس سے اس کی کی گئی محنت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ماں اچھی اور محنتی ماں ہوتی ہے۔ لیکن وہ ایک کامیاب ماں ٹھہرتی ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ بہت سارے مختلف عناصر کرتے ہیں۔ ان عناصر کا ذکر میں نے دفتا فوقتاً ممی کی ڈائری کے ان صفحات پر کئی بار کیا ہے۔

بہت ساری وجوہات ماؤں کی کامیابی میں دخل دیتی ہیں۔ میں اس سارے عمل میں سے ایک انٹرنی کی طرح سے گزری اور دن رات سالہا سال اسے دے کر میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے زندگی کے بڑے بڑے سبق ان بارہ سالوں میں سیکھے۔ آج مجھے شاید اتنے لوگ نہیں جانتے جتنے غائبانہ طور پر ممی سے واقف ہیں۔ مختلف صفحات اور گروپس میں ممی کی ڈائری کے صفحات چھپے اور ایک ممی کے ٹائیٹل تلے یہ ہر اس ماں تک پہنچے جس کے لئے یہ لکھی گئی۔ یہی میری کامیابی ہے۔ پھر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کوئی ممی کی اصل صورت سے واقف نہیں یا اس کے اصل حوالے سے لاعلم ہے۔ اگر ممی کی ڈائری نے ہر اس ماں کے دل کی بات کر کے اسے کچھ سکون کچھ آسرا کچھ شعور بخشا ہے تو یہی میری اس تمام کوشش کا حاصل ہے۔ جی ہاں! میں ہی ہوں وہ ممی جس کی تحریریں ممی کی ڈائری کے عنوان سے آپ پڑھتے رہے ہیں۔

میں ماؤں کی اس نسل میں سے ہوں جن کی ماؤں نے ان کو شہزادیوں کی طرح ناز نخروں سے پروان چڑھایا۔ جن کو کچن کے گرم چولہے کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ جنہوں نے گھر کے کسی کام کو کبھی ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا۔ والدین ہمیں زندگی میں سب سے کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہمیں پڑھائی کے لئے کھلا وقت دیتے تھے تا کہ ہم ڈاکٹر اور انجینئر بن کر اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ یہ اور بات کہ کچھ ہمارے جیسے نکمے لوگ کتابوں میں سر دے کر کہانیاں اور غزلیں لکھنے میں وقت بتاتے تھے یا رنگوں کی دنیا میں تخیل کی پروازوں میں الجھے رہتے تھے۔ سو میں بھی فرصت سے کتابیں پڑھتی تھی، نظمیں اور غزلیں کہتی تھی، دوستوں سے گپ شپ لگاتی تھی اور انہیں خوش گپیوں میں مگن رہتی تھی کہ ایک دم میرے سامنے بیوی اور ماں ہونے کی منزل آ گئی۔ ایک ایسی منزل جس کے لئے میری مہارت اور علم صفر سے بھی کم تھا۔

میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں کہ ہمارا معاشرہ ایک کنفیوژ معاشرہ ہے جسے یہ نہیں پتا کہ گندم اگانی ہے تو گندم ہی بونی ہے۔ ہم ڈاکٹر انجینئر بنانے کی خواہش میں لڑکیوں کو اعلی تعلیم دیتے ہیں مگر بعد میں ان کی اعلی تعلیم گھر رکھ کر جہیز دے کر گھر بنانے رخصت کر دیتے ہیں جس کے لئے تمام تر قابلیت گول روٹی پکانے کی مہارت، میاں اور سسرال کے نخرے برداشت کرنے کی طاقت اور بچوں کو چپ کروانے کے ہنر پر منحصر ہے۔ تو میں بھی سائنس پڑھتے پڑھتے انگلش ادب میں پہنچی اور لیکچر دیتے دیتے گھر گرہستی میں اٹکی اور میں نے اگلے کئی سال ہوم اکنامکس کے اس علم کو استعمال کرنے میں لگائے جو میں نے کبھی حاصل نہ کیا۔

ڈش واشنگ کی کیمسٹری سے لیکر، پیمپر کی بائیو تک، سردی کی چھینکوں سے گرمی کے بخار تک مجھے کسی چیز کا کوئی علم نہ تھا۔ تو پہلے ہی سال جب ہجرت مجھے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ ایسے متحدہ عرب امارات لے آئی کہ نہ میرے پاس کوئی بتانے اور سمجھانے والی ماں تھی نہ ساس، نہ بہن نہ نند۔ لے دے کر چند نام کی بھابیاں۔ جن کا ساتھ کبھی مل پاتا کبھی نہیں۔ تو اگلے تمام سال اس مدرہڈ کے دریا میں تن تنہا بغیر کسی کی رہنمائی کے میں تیری۔

بہت سی غلطیاں ہوئیں، بہت سے خمیازے اٹھائے، چیزیں بگڑیں، پھر بگڑی چیزوں کو سنوارا، سنوری چیزیں خراب ہوتیں اور ان کو دوبارہ سے سنبھالنا پڑتا۔ ایک سیکھنے کا غلطیوں بھرا طویل سفر تھا جو میں نے گزارا۔ مانا سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے بہت کچھ آسان کر دیا ہے پر آج سے بارہ سال پہلے سب اتنا بھی آسان نہیں تھا جتنا تیز رفتار آج ہے اور سب تو یہ ہے کہ شروعات میں ہمیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہر چیز گوگل پر مل جاتی ہے۔

پھر نئے ملک نئے معاشرے کے نئے تقاضے اور نئے مسائل بھی تھے جو ہر آسان چیز کو بھی بہت مشکل کر دیتے تھے۔ تو ان تمام غلطیوں سے سیکھتے سیکھتے زندگی سے کچھ بہت بنیادی سبق اخذ کیے۔ ایک سب سے اہم سبق جو نہ صرف سیکھا بلکہ سہا وہ یہ تھا کہ چیلنج صرف یہ نہیں ہوتا کہ آپ وقت کے ساتھ کس رفتار سے بھاگتے ہیں۔ چیلنج یہ بھی بہت مشکل ہے کہ کب آپ بھاگنا چھوڑ کر خاموشی سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مشکلوں کو اپنے سر کے اوپر سے گزرنے دیتے ہیں۔ اور یہ چیلنج میں نے بھی بہت سی دوسری نوکریاں چھوڑ کر گھر گھرہستی کرنے والی خواتین کے ساتھ قبول کیا۔

ایک وقت آ تا ہے جب آپ کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اور رابرٹ فراسٹ کی طرح آپ صرف ایک چن سکتے ہیں۔ اور یہ وقت اکثر پاکستانی عورتوں کی زندگی میں آتا رہتا ہے۔ تو جب وہ وقت آیا تو میں نے بھی ایک پلڑے میں اپنی سال بھر کی بیٹی اور دوسرے میں اپنا کیریئر رکھا تو ماؤں کی اکثریت کی طرح کرئیر کو بہت ہلکا جانا۔ آج مجھے اپنے فیصلے سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس اختلاف کی ٹھوس وجوہات بھی کچھ جگہوں پر میں ممی کی ڈائری میں دے چکی ہوں۔

مگر اس وقت یہ میرے عقل اور شعور کے مطابق ایک بہترین فیصلہ تھا۔ یہی وجہ ممی کی ڈائری لکھنے کی وجہ بنی کہ یہ سفر بہت کچھ سیکھنے اور بہت سے نظریات بدلنے کا تھا۔ اپنا ہر آئیڈیا زندگی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا، اپنی ہر خواہش کو آزمانے کے بعد بہت سارے معاشرے سے سیکھے رویوں کو غلط پایا، بہت سی باتیں جو صبح شام ہمارا معاشرہ اور لوگ ہمیں سکھاتے رہتے ہیں انہیں بے وزن اور غیر منطقی دیکھا اور زندگی پر ان کا مفید اثر ہونے کی بجائے غیر مفید دیکھا۔

اس سارے سفر میں سیکھا کہ ہر بتائی جانے والی بات ٹھیک نہیں ہوتی، ہر مشورہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ اور جب بات آپ کے بچوں کی ہو تو اس میدان میں تجربات کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہر ماں صفر سے تجربات کر کے اپنے بچوں کی صحت اور سلامتی خدانخواستہ داؤ پر نہیں لگا سکتی اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے مشاہدات کی بات کی جائے۔ اور ہر اس ماں سے کی جائے جس کو آج ان باتوں کی ضرورت ہے بجائے کہ وہ زندگی گزار کر تب ان باتوں کو جانے جب ان سے فایدہ اٹھانے کا وقت ہی گزر چکا ہو۔ اس لئے بھی ممی کی ڈائری لکھنا بہت ضروری تھا۔ اور الحمدللہ میرے ویب پورٹل صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ کے ساتھ ساتھ ”ہم سب“ سمیت بہت سے پلیٹ فارمز اور فیس بک گروپس اور پیجز نے اس پیغام کو پھیلانے میں میرا ساتھ دیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2