فرشتہ پٹھان، زینب پنجابی اور ملکوال کی لاوارث بچی


وہ ایک پیغام تھا جو مئی کی اس صبح عام ہوا۔

تیری زینب پہ واویلا، میری فرشتہ پہ خاموشی

تو مسلم پنجاب کا، میں کافر پختونخوا کا

نیچے ننھی فرشتہ کی تصویر تھی۔ میں نے وہ تصویر دیکھی۔ مجھے تو وہ زینب سے مختلف نہ لگی۔ وہی آنکھوں میں چمک، وہی معصومانہ مسکراہٹ۔ وہی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بڑے بڑے خواب۔ زینب اگر تین سال اور بڑی ہوتی تو بعینہ ایسی ہی ہوتی۔ مجھے تو اس فرشتہ اور اس زینب میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ مجھے تو وہ پختونخوا کی کافر نہیں لگی، بیٹیاں کافر یا مسلمان کہاں ہوتی ہیں وہ تو صرف بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اپنائیت کے رنگ میں رنگی ہوئی۔

میں نے کوشش کی دونوں میں فرق ڈھونڈنے کی۔ لیکن میں ناکام رہا۔ میں ناکام رہا کہ میں دونوں بیٹیوں میں کوئی فرق ڈھونڈ سکوں۔ میں ناکام رہا کہ کرب کی شدت میں فرق محسوس کروں جو تب زینب کی کوڑے کے ڈھیر پہ پڑی لاش دیکھ کر ہوا تھا یا اب فرشتہ کہ سوختہ نعش کو دیکھ کر طاری ہوا۔ میں ناکام رہا کہ میں امتیاز کر سکوں بے بسی کے اس احساس میں جو زینب کے تصویر دیکھ کر میرے رگ وپے میں سما گیا تھا اورجو اب فرشتہ کی صورت دیکھ کر بھی وجود کا حصہ بن چکا ہے۔

میں تسلیم کرتا ہوں میں ناکام رہا۔

میرے دل میں درد کی جو لہر اٹھی وہ تو ویسی ہی تھی جو زینب کو دیکھ کر اٹھی تھی۔ ان لہروں کی بھی بھلا کوئی زبان تھی۔ میں کیا؛ اس دن جس جس نے بھی یہ تصویر دیکھی یونہی تلملایا ہوگا۔ جس جس نے بھی یہ خبر سنی ہوگی۔ رگ و پے میں ویسا ہی طوفان برپا ہوا ہوگا جیسا زینب کی خبر سن کر ہوا تھا۔ ان پڑھ سے ان پڑھ پنجابی، بلوچ، سندھی میں سے بھی جس نے یہ خبر سنی ہوگی اپنی بیٹی جیسا کرب ہی محسوس کیا ہوگا۔ بے ساختہ آنکھوں میں آنے والے آنسووں کی تپش تو سب نے ایک جیسی ہی محسوس کی ہوگی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی ایک زبان والے کے سینے کو جکڑنے والی پھانس دوسرے زباں والے سے زیادہ یا کم ہو۔ بہت سے درد سانجھے ہوتے ہیں۔ جیسے یہ تھا۔

کہا گیا؛ کہ قانون نافذ کرنے والوں نے عصبیت کا مظاہرہ کیا تو میرے سامنے ساہیوال ٹول پلازہ پہ لہو لگا فیڈر زخمی ہاتھ میں تھامے، حواس باختہ معصوم منیبہ خلیل آن کھڑی ہوئی۔ ہم زبان ہونے کا اسے تو کوئی فائدہ نہیں ملا۔ وہ ویڈیو تو آپ نے دیکھی ہوگی کہ پولیس والے ان بچوں کو پیٹرول پمپ سے گاڑی میں بٹھا رہے ہیں۔ تینوں بچے کتنے بے بس تھے اس دن (بے بس تو وہ اب بھی ہیں ) ۔ اب بھی وہ ویڈیو دل پہ کتنے نشتر چلا دیتی ہے۔ اب بھی اسے دیکھتے ہی ہر چیز سے دل اُچاٹ سا ہو جاتا ہے۔ ان کیفیات کو آپ پشتون یا پنجابی کے سانچے میں قید کرسکتے ہیں۔ نہیں ناں۔ درد بھی سانجھے ہوتے ہیں اور رویے بھی۔

ایک بیٹی کی ننگے پاؤں عدالت سے نکلنے کی تصویر دیکھ کر سندھ کی اس بیٹی کا درد صرف سندھ تک نہیں رہا۔ ہر درد دل کے حامل کا درد بن چکا ہے۔ بیٹیوں کی آہیں دلوں کے تار ہلا دیتی ہیں۔ چاہے جس زبان میں بھی ہوں۔

بیٹیوں کو بیٹیاں ہی رہنے دیں انھیں کافر یا مسلمان میں نہ بانٹیں۔ انھیں پاکستان اور افغانستان کی نہ بنائیں۔ ان کے درد کو اپنا درد سمجھیں۔ درد میں فرق کرنے سے اپنے اپنے درد کی شدت بڑھ جاتی ہے اور درد بانٹنے سے اس درد کی دوا بننا آسان ہوتا ہے اور درد کی دوائیں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ درد کو سانجھا جانا جائے۔

اور بدقسمتی کہہ لیجیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس درد کی تشہیر بھی ہو۔ تشہیر ہوتی ہے تو آوازیں شامل ہوتی ہیں اور آوازیں خراٹے مارتے انصاف کو نیند سے بیدار کرتی ہیں۔

آواز میں آواز ملی تو فرشتہ اور زینب کے قاتل پکڑے گئے لیکن ایک لاوارث کے لئے آواز نہیں اٹھ رہی۔ درد کی اس تشہیر میں ایک بیٹی کا درد اس طرح سے عام نہیں ہو پا رہا۔

اس دن ایک اور خبر بھی فیس بک میں عام ہوئی۔ دو زندہ لاشوں کی خبر۔ ایک لاش کا چہرہ تیزاب سے جھلسا ہوا تو دوسرے کا دل۔ پیر صاحب نے خدمت کا صلہ عزت اور چہرہ دونوں سے محرومی کا دیا۔

فرشتہ اور زینب تو اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوکر زمینی خداؤں کا گلہ کر رہی ہوں گی لیکن ملکوال کی اس بچی کی زندہ لاش خداؤں سے انصاف مانگ رہی ہے۔ شاید تیزاب نے صرف اس کا چہرہ نہیں جھلسایا ہماری سماعتیں بھی جھلسا دی ہیں۔ تب ہی تو اس کی چیخیں ہم تک نہیں پہنچ رہیں۔ تب ہی تو آج اس واقعے کو اتنے دن ہونے نے باوجود انصاف خراٹے مار رہا ہے۔

ہم زینب کے وارث بنے، ہم نے فرشتہ کے ورثا کو یقین دلا دیا کہ فرشتہ لاوارث نہیں تھی لیکن ملکوال کی لاوارث بچی کو ہمارا انتظار ہے۔ آئیے اس بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھیں۔ کیونکہ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).