صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام


کچھ دنوں سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ جو موضوع زیرِ بحث ہے وہ صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام ہے۔ یہ وہی اہم ترین ایشو ہے جو کچھ عرصہ قبل صوبہ سرائیکستان کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنا تھا مگر اس وقت یہ کہہ کر صوبہ جنوبی پنجاب کے حامیوں کو خاموش کروایا گیا کہ ان کے دماغوں میں تعصب زیادہ ہے اور یہ لسانی اور ثقافتی تعصب کی بنیادپر علیحدہ صوبے کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات آخر وقت نے ثابت کر دی کہ اس وقت علیحدہ صوبہ ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کی آبادی بارہ کروڑ ہے ’اسے صرف ایک وزیر اعلیٰ اور ایک چیف سیکرٹری کنٹرول کر رہاہے۔

کتنے اچنبھے کی بات ہے کہ باقی تینوں صوبوں کی آبادی تقریبا دس کروڑ اور ایک اکیلے پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر دور میں یہ نعرہ لگایا جاتا رہا کہ الگ صوبے کا قیام ناگزیر ہے مگر اس پر نہ تو کبھی سنجیدگی سے سوچا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے مشاعروں ’سیمینارز اور کانفرنسوں کے سلسلے میں جب بھی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز میں جانا ہوا، سرائیکی نوجوانوں کا الگ صوبے کے حوالے سے اضطراب اور غم و غصہ دیکھ کر مجھے یہ خدشہ ہونے لگا تھا کہ کہیں ایسا ہی نہ ہوں سرائیکی نوجوان نسل بھی پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) اور بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کی طرح کوئی متشدد جماعت یاکوئی بھی ایسا پلیٹ فارم بنا کر کوئی انتشار نہ پھیلائیں یا پنجاب کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا نہ کریں۔

میں اکثر سرائیکی دوستوں سے ملتے ہوئے ایک سوال لازمی کرتا ہوں کہ آپ کو صوبے کا قیام کیوں چاہیے؟ مجھے وہ جواب دیتے ہوئے کئی دفعہ آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ آج بلوچستان اور کوئٹہ میں پنجاب کے حوالے سے جو تعصب موجود ہے (اگرچہ کسی حد تک خاتمہ ہوا) وہی تعصب ان نوجوانوں میں بھی پروان چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ حیرانی کی بات دیکھیے کہ گزشتہ حکومت نے اٹھائیس ( 28 ) فیصد بجٹ جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے مختص کیا تھا جس میں سے انھیں صرف چھے ( 6 ) فیصد ملا اور اس سے زیادہ حیرانی کی بات ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز گل نے ٹاک شو کے دوران بتائی کہ لاہور میں ایک شخص پر تقریبا سالانہ ایک لاکھ خرچ ہوا اور جنوبی پنجاب میں ایک شخص پر تقریبا ایک سو روپے سالانہ خرچ ہوا۔

اس سے اندازہ لگایے کہ جنوبی پنجاب کے معاملے میں کس قدر سنجیدہ تھے۔ مجھے یہ جان کر بھی حیرانی ہوئی کہ جنوبی پنجاب جس کی آبادی بتیس ( 32 ) فیصد ہے، وہاں صرف دو سرکاری یونیورسٹیاں (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان) ہیں۔ جبکہ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے طلبا و طالبات نے چار ماہ ریکارڈ احتجاج کیا تھا کہ انھیں کوئی وائس چانسلر فراہم کیا جائے مگر اس حوالے سے انتظامیہ نے کئی بار سٹوڈنٹس سے مذاکرات کیے ’وعدے کیے اور پتا نہیں وہ پورے ہوئے یا نہیں۔

مزید دیکھیں کہ پورے جنوبی پنجا ب کو ایک سرکاری نشتر ہسپتال کے رحم وکرم چھوڑا ہوا ہے ’آج جنوبی پنجاب کے بتیس فیصد عوام والے صوبے کا نعرہ تو لگایا جا رہا ہے کیا اسے کوئی نیا سرکاری ہسپتال‘ نیا کالج یا نیا ٹراما سینٹر مہیا کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت نئے صوبے کے قیام میں کس حد تک سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس صوبے کے قیام کے بعد لگایا جاسکے گا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ملتان سے میانوالی جاتے ہوئے کئی دفعہ ایم ایم روڈ سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اس روڈ اور اس شہر کا مسیحا نیند کی گولی کھا کر سو رہا ہے۔ مجھے وہاں کے رہائشی ایک دوست بتا رہے تھے کہ سب سے زیادہ حادثے اس روڈ پر ہوتے ہیں مگر کیا آج تک کسی مسیحا کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ یہی صورت حال مجموعی طور پر وہاں سڑکوں ’کالجز اور ہسپتالوں کی ہے۔

پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے کیوں بھول رہے ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں نئی آبادیاں اور نئے شہر ناگزیر ہو گئے ہیں اور خاص کر کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لیے۔ میں اس سے قبل بھی کئی کالموں میں اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ پنجاب کی انتظامی لحاظ سے کار کردگی اس لیے خاطر خواہ نہیں کہ ایک وزیراعلیٰ سے بارہ کروڑ کی آبادی سنبھالنا یقینا مشکل کام ہے۔ دوسری سب سے بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی احساسِ کمتری ہے جس سے ان کے دلوں میں پنجاب کے بارے کوئی محبت و الفت والے جذبات موجود نہیں۔

وہاں کے ننانوے فیصد آبادی میں صرف تعصب اور غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ آپ اس حوالے سرائکی ادب کا مطالعہ کر لیں ’جس طرح علیحدہ صوبے کے لیے ان کے انقلابی رجحانات اور سخت رویے موجود ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ علیحدہ صوبے کے معاملے میں کس درجہ سنجیدہ اور پروگریسیو ہیں۔ وہاں کے تخلیق کاروں کا خیال یہ ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتاہے‘ اس کا ادب ’ثقافت اور لسانی وریہ باقی تمام صوبوں سے مکمل مختلف اور مالا مال ہے۔

جنوبی پنجاب کے قیام سے اس تہذیب اور ثقافت کو نہ صرف ترقی ملے گی بلکہ اسے پنپنے کا موقع ملے گا۔ ہر دفعہ الیکشن کے دنوں میں وہاں کے سردار اور مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈرزیہ نعرہ لگاتے رہے کہ الگ صوبہ بنایا جائے مگر الیکشنوں کے بعد وہی ہوتا رہا جیسا کہ عام طور اس ملک میں ہوتا رہا۔ اس دفعہ بھی الیکشن کمپین میں خسرو بختیار اور اس کے قریبی ساتھیو ں نے یہ نعرہ لگایا کہ صوبہ بنے گا اور عوام نے ایک دفعہ پھر ان پہ بھروسا کیا۔

وزیر مملکت خسرو بختیاراب یہ صوبہ بنانے میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں یہ ثابت ہونے والا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول ملتان ’بہاؤلپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنز پر مشتمل یہ صوبہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنتا ہے تو وہ اضلاع (بھکر‘ میانوالی ’خوشاب‘ ڈی آئی خان ) جو جنوبی پنجاب میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں ’ان کا کیا بنے گا۔ یہاں ایک اہم سوال جو تقسیم کی مخالفت کرنے والے سرائیکی دوستوں کی طرف سے اٹھایا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر صوبہ علیحدہ بنا تو وہاں موجود سرداری نظام مزید طاقتور ہو جائے گا۔ ہمیں سرداری اور جاگیرداری نظام سے بچنے کے لیے تختِ لاہور کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔

یہ پریشانی اپنی جگہ اہم ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب بنانے سے اگر جاگیرداری کلچر میں اضافہ ہو گیا تو اس کے نقصانات کیا ہوں گے۔ مگر اس کے برعکس یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر وہاں اکیسویں صدی میں بھی سرداری نظام موجود ہے تو جمال لغاری، اویس لغاری ’ذوالفقار کھوسہ (بیٹوں سمیت) ، افتخارنواب زادہ، عبدالحی دستی، یوسف رضا گیلانی ( بیٹوں سمیت) اور سکندربوسن، مصطفی کھرجیسے سدا بہار سردار گزشتہ کئی الیکشنوں میں بری طرح شکست کیوں کھا گئے۔ نئے صوبے کے قیام کی قراردار اگرچہ اسمبلی جمع ہو چکی‘ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں آج جنوبی پنجاب کے عوام کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں یا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس معاملے کو دوبارہ کھائی میں ڈال دیتی ہیں۔

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).