یورپی انتخابات میں بھی سوشل میڈیا پر جھوٹ کی بھر مار


یورپی یونین کا جھنڈا

یورپی یونین کے انتخابات کی تیز و تند انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر یورپ کو موجودہ دور میں درپیش اہم امور پر زبردست اور کھل کر بحث کی۔

لیکن جس کا خدشہ تھا اس بحث کے دوران گمراہ کن معلومات کی بھی بھر مار رہی۔

اس میں بہت سے امور شامل تھے جن میں کئی گروپس اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے نظر آئے، اور کچھ سوشل میڈیا صارفین نے بڑی مقدار میں مختلف موضوعات پر مواد شائع کیا جس میں ‘امیگریشن’ کا معاملہ بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

انڈین الیکشن: واٹس ایپ ’جعلی خبروں کا بلیک ہول’

جعلی خبریں کیسے پکڑی جائیں؟

سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس اور ان کے سیاسی مقاصد

الجیریا

بی بی سی کے ‘ریئلٹی چیک’ یا حقائق معلوم کرنے اور مانٹرنگ کے شعبوں نے گمراہ کن اورضعیف معلومات کی کچھ مثالوں کا جائزہ لیا اور ان کو جھوٹی اور گمراہ کن دو درجوں میں تقسیم کیا۔ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #euelections2019 کے ساتھ وسیع پیمانے پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو ایک مجسمے کو نقصان پہنچاتے ہوئے دکھایا گیا جس کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا کہ یہ واقعہ اٹلی میں پیش آیا۔

اس ریکارڈنگ میں لوگوں کا ایک ہجوم ایک مجسمے کے ارگرد جمع تھا۔ اس میں ایک شخص چھینی اور ہتھوڑی کے ساتھ خاتون کے اس مجسمے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ آس پاس کھڑے لوگ اس شخص کو باز رکھنے کے لیے اس پر کچھ پھینکتے ہیں اور پھر پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے اور اس شخص کر گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ میں جس کو ہزاروں لوگ نے دیکھا اور آگے شیئر کیا، لکھا گیا کہ ‘ایک مسلمان تارک وطن اٹلی میں اس مجسمے کو اس لیے نقصان پہنچا رہا ہے کہ اس کے جسم کے کچھ حصے عریاں ہیں۔ یورپ کو معلوم نہیں کہ آئندہ پانچ سے پندرہ برس میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔’

لیکن اصل میں یہ واقع اٹلی میں پیش نہیں آیا تھا بلکہ ویڈیو میں دکھایا جانے والا مجسمہ عین الفورۃ کا فوارہ الجیریا میں تھا۔

ذرائع ابلاغ کے بہت سے اداروں جن میں مصر کا ٹی وی، فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی اور ٹی وی نیٹ ورک فرانس ٹوئنٹی فور شامل تھے انھوں نے اس واقع کی خبر دی تھی جو دسمبر دو ہزار سترہ میں الجیریا میں پیش آیا تھا۔

مجسمے کے علاوہ اس کے اوپر لگی سٹریٹ لائٹ۔ اس گلی کے منظر میں جو عمارتیں ارگرد دکھائیں دیں تو سطیف الجیریا کی تھیں۔

کچھ پوسٹس میں کہا گیا کہ یہ حضرت مریم کا مجسمہ تھا۔ حقیقت میں یہ ایک دیوملائی کردار کا مجسمہ تھا۔

اس ویڈیو پر مبنی بہت سے پوسٹس مختلف زبانوں میں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں اور حقائق معلوم کرنے والوں کی طرف سے اسے جھوٹ قرار دیے جانے کے باوجود اس کو ان دنوں ہزاروں لوگوں نے دیکھا اور کئی سو نے آگے بھی بڑھایا۔ اس ویڈیو کا ایک اور ورژن جو گزشتہ سال جاری کیا گیا تھا اس کو فیس بک پر ستائیس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔

میمز نے کیا کیا؟

لاتعداد الیکشن میمز اور غیر سرکاری کارڈ بنائے گئے جن میں سیاست دانوں کا مذاق اڑایا گیا یا ان کی غلط عکاسی کی گئی۔

اس طرح کا ایک کارڈ جس پر لیبیا کے تارکین وطن کے بارے میں ایک جملہ درج تھا اس کو اٹلی کی ڈیموکریٹک پارٹی پی ڈی کی سرکاری علامت کے ساتھ شائع کیا گیا اور اس کو غلط طور پر جماعت کی سربراہ نکولا زنگارتی سے منسوب کیا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ یورپی انتخاب جیتنے کے بعد یورپ سے کہا جائے گا کہ وہ ایک حکم نامہ جاری کرے کہ اٹلی کی تمام بندرگاہیں آٹھ لاکھ لیبیائی تارکینِ وطن کے لیے کھول دی جائیں۔

پی ڈی نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ زنگارتی نے اس قسم کا کوئی بیان نہیں دیا اور جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے ان کی پولیس سے شکایت کی گئی ہے۔

گمراہ کن

میمز جو آگے بڑھائی گئیں وہ دائیں بازو کی پالیسیوں کی حمایت میں تھیں۔

اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ لیبیا کے وزیر اعظم نے آٹھ لاکھ تارکیں وطن کا ذکر اٹلی کے اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا تھا۔

لیکن آٹھ لاکھ کا جو ہندسہ انھوں نے اپنے بیان میں استعمال کیا وہ ایک اندازے پر مبنی تھا کہ اگر لیبیا میں حالت خراب ہوتے ہیں تو ملک چھوڑ کر اٹلی پہنچنے والوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

اٹلی کے وزیر خارنہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اتنی بڑی تعداد کے بارے میں کوئی ثبوت یا اشارہ موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال سمندر کا سفر کر کے ایک ہزار افراد اٹلی پہنچے ہیں۔

گزشتہ سال 23370 تارکیں وطن اٹلی آئے، جو اس سے پچھلے سال اٹلی آنے والے ایک لاکھ افراد سے کہیں کم تھے۔

فرانسسی صدر کا گندے انڈوں سے استقبال

فیس بک، ٹوئٹر اور ریڈاٹ پر فرانسیسی صدر پر گندے انڈے پھینکے جانے اور ان پر ہوٹنگ کرنے کی ویڈیو چلتی رہی۔

برطانیہ کے ایک فیس بک صفحے پر مئی کی پانچ تاریخ کو شائع کی گئی جس کے نیچے تحریر تھی کہ فرانسیسی صدر کی یہ وڈیو سامنے آئی ہے جس میں ان پر گندے انڈے پھنکے گئے ہیں اور ان کو بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ذرا سوچیں کہ اگر ایسا صدر پوتن کے ساتھ ہوتا۔

اپریل میں جرمن فیس بک سے یہی ویڈیو جاری ہوئی تھی جس کو چار ہزار مرتبہ آگے بڑھایا گیا اور دو لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔

یہ ویڈیو در اصل سنہ دو ہزار سولہ کی تھی جب فرانسیسی صدر میکراں اقتصادی امور کے وزیر تھے اور پریس میں ان کی سامنا لیبر اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مزدوروں سے ہو گیا تھا۔

اس وقت یہ واقع بہت سے اخباروں میں رپورٹ کیا گیا تھا۔

میمز

روم کے کلوشیم پر احتجاج

پرانی ویڈیوز کو دربارہ جاری کرنے کے بے شمار واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ دو ہزار سولہ کی ایک ویڈیو حال ہی میں دوبارہ منظر عام پر لائی گئی جس میں مسلمان روم میں کلوشیم کے باہر نماز پڑھ رہے ہیں۔

دو ٹوئٹر اکاؤنٹس پر یہ دعوی کیا گیا کہ یہ وڈیو انیس مئی دو ہزار انیس کی ہے۔ یہی ویڈیو ہالینڈ کے اسلام مخالف سیاست دان گیرتھ ورلڈرز نے پوسٹ کی تھی۔ ایک اکاؤنٹ میں کہا گیا کہ مسلمان ایک مسجد کے بند کیے جانے پر اٹلی کے وزیر داخل میتو سلوینی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔

آن لائن ویڈیوز کی تصدیق کرنے کے ایک طریقہ اور گوگل کی سرچ کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو سنہ دو ہزار سولہ کی ہے جو اٹلی کی ایک ویب سائٹ پر جاری کی گئی تھی۔ یہ ویڈیو ایک عارضی مسجد کو ختم کرنے پر احتجاج کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp