انڈونیشیا کے وہ گاؤں جہاں مائیں نہیں ہوتیں


انڈونیشیا

عورتیں ملک سے باہر جا کر کام کرتی ہیں

انڈو نیشیا میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں تقریباً تمام مائیں کام کے سلسلے میں گھر سے دور دوسرے ملکوں میں کام کر رہی ہیں اور انڈونیشیا میں ان علاقوں کو ‘بغیر ماں کے گاؤں’ کہا جاتا ہے۔ بی بی سی کی نامہ نگار ربیکا ہینسیک نے پیچھے رہ جانے والے بغیر ماں کے ان بچوں سے ملاقات کی۔

انڈونیشیا: ماں، باپ اور بچوں کے گرجا گھروں پر خود کش حملے

94 سالہ کیلے فروش کے لیے عطیات

ایلی سوسی اوتی کی ماں جب انہیں ان کی دادی کے پاس چھوڑ کر گئیں تو وہ صرف گیارہ سال کی تھیں۔ ایلی کے والدین میں علیحدگی ہو چکی ہے اور ان کی ماں مارثیا کو سعودی عرب میں گھریلو ملازمہ کا کام کرنے جانا پڑا۔ جب میں ایلی سے پہلی بار ملی تو سکول کا انکا آخری سال تھا ایلی نے بتایا تھا کہ ماں کے جانے کے بعد انکی زندگی قابلِ رحم تھی۔ انہیں اپنے والدین کی علیحدگی کا بھی دکھ تھا۔

انڈونیشیا

ایلی کا کہنا تھا کہ ‘جب میں اپنے دوستوں کو انکے والدین کے ساتھ دیکھتی تھی تو مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی میں چاہتی تھی میری ماں واپس آ جائے۔

ایلی کے گاؤں میں یہ خیال عام تھا کہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے جوان ماؤں کا ملک سے باہر جا کر کام کرنا ضروری ہے۔ یہاں زیادہ تر مرد یا تو کاشتکار ہیں یا مزدور ہیں اوران کی آمدنی بہت کم ہے جبکہ عورتیں ملک سے باہر جا کر گھریلو ملازمہ یا آیا کے طور پر کام میں ان سے کہیں زیادہ کما لیتی ہیں۔

جب مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر کام کرنے باہر جاتی ہیں تو مرد بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ارد گرد کے لوگ بھی ایک دوسرے کے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔

انڈونیشیا

کریماتل اپنی آنٹی بیگ کے ساتھ

لیکن کسی بھی بچے کے لیے اپنی ماں سے علیحدہ رہنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔

کریماتل ادیبیہ کی ماں جب اسے چھوڑ کر گئی تو وہ محض ایک سال کی تھی۔ کریماتل کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کبھی اپنی ماں کے ساتھ رہی بھی تھی۔ کریماتل نے اس وقت پہلی بار اپنی ماں سے ملاقات کی جب وہ پرائمری سکول ختم کر چکی تھی اور اسکی ماں اس سے ملنے آئی تھی۔

کریماتل اپنی آنٹی کو ہی ماں سمجھتی تھی جس نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔

‘مجھے یاد ہے کہ میری ماں رو رہی تھی اور میری آنٹی سے کہہ رہی تھی کہ اسے کیوں نہیں معلوم کہ وہ میری بیٹی ہے۔

کریماتل کی آنٹی کا کہنا تھا کہ انکے پاس اس کی کوئی تصویر نہیں تھی۔ کریما تل کو صرف اپنی ماں کا نام اور پتہ معلوم تھا۔

انڈونیشیا

کریماتل کا کہنا تھا میں اپنی ماں کو یاد کرتی تھی لیکن ساتھ ہی مجھے غصہ بھی آتا تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی تھی لیکن کریماتل کہتی ہیں کہ اس وقت میں چھوٹی تھی۔

کریماتل اب تیرہ سال کی ہے اور ہر رات اپنی ماں کو ویڈیو کال کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو میسج بھی کرتی ہیں لیکن ابھی بھی یہ ایک مشکل رشتہ ہے۔

‘اب بھی جب میری ماں چھٹیوں پر آتی ہے تو میں اپنی آنٹی کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔ وہ مجھ سے کہتی ہیں کہ میرے پاس آ کر رہو لیکن میں کہتی ہوں بعد میں آؤں گی’۔

کریماتل کی آنٹی بیگ نورجنا نے دیگر نو بچوں کی پرورش کی ہے جن میں سے صرف ایک انکا بچہ ہے۔ نور جنا پچاس کے پیٹے میں ہیں اور انہوں نے اپنے ان تمام بھائی بہنوں کے بچوں کی دیکھ بھال کی ہے جو کام کے لیے ملک سے باہر ہیں۔

انڈونیشیا

وہ کہتی ہیں کہ ‘الحمد اللہ میں نے کبھی کسی بچے میں فرق نہیں کیا یہ لوگ بھائی بہن کی طرح ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔

انڈونیشیا کے اس علاقے سے عورتوں نے 80 کی دہائی میں ملک سے باہر جا کر کام کرنا شروع کیا۔ کسی طرح کا قانونی تحفظ نہ ہونے کے سبب یہ لوگ طرح طرح کی زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی لوگ مر گئے، کچھ کے ساتھ انکے مالکان نے بری طرح مار پیٹ کی اور کچھ کو بغیر اجرت کے گھر واپس بھیج دیا گیا۔

کبھی کبھی تو یہ مائیں بچے ساتھ لے کر واپس آئیں جو بچے یا تو انکے ساتھ زبردستی جنسی تعلق کا نتیجہ تھے یا پھر انکی مرضی سے ایسا ہوا تھا۔ ان بچوں کو اکثر تحفہ سمجھا جاتا ہے۔

مکسڈ ریس یا مخلوط نسل ہونے کے سبب وہ گاؤں میں دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی فاطمہ کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی انہیں لوگوں کی توجہ اچھی لگتی ہے۔ ‘لوگ اکثر مجھے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کیونکہ میں ان سے مختلف لگتی ہوں، کچھ لوگ کہتے ہیں تم بہت خوبصورت ہو تم میں عرب خون ہے’۔ فاطمہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ‘مجھے خوشی ہوتی ہے’۔

انڈونیشیا

ایلی

لیکن تارکین وطن کے حقوق کےلیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جنہیں تحفہ تصور کیا جاتا ہے انہیں اکثر رسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور سکول میں بھی انہیں حراساں کیا جاتا ہے۔

فاطمہ اپنے سعودی باپ سے کبھی نہیں ملی لیکن فاطمہ کے والد اسکی ماں کو پیسہ بھیجتے تھے تاکہ وہ گھر پر رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکے، لیکن حال ہی میں انکا انتقال ہو گیا اس کے بعد فاطمہ کی ماں کی زندگی مشکل ہو گئی اور وہ ایک بار پھر ملازمت کے لیے سعودی عرب چلی گئیں۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ میری ماں میرے بھائی کی وجہ سے بھی سعودی عرب گئی ہے کیونکہ وہ جب بھی کسی کی موٹر بائیک دیکھتا تھا تو ماں سے پوچھتا تھا کہ میں ایسی بائیک کب لونگا کسی کا موبائل دیکھ کر کہتا تھا کہ مجھے بھی ایسا موبائل چاہیے۔ فاطمہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر میری ماں سعودی عرب نہ جاتی تو زندگی گذارنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے۔

انڈونیشیا

سپری ہاتی بھی کام کے لیے اس وقت سعودی عرب گئی تھیں جب انکے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ انکا کہنا ہے کہ انکے اس فیصلے کا نتیجہ اچھا رہا۔ ‘میں نے اپنے حصے کی مشکلات جھیل لی ہیں لیکن اب سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

سپری ہاتی نے پیسے بچا کر اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیے اور اب انکی زندگی سدھر چکی ہے۔اب انہیں کام نہیں کرنا پڑتا کیونکہ انکے بچے انکی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

لیکن وہ جانتی ہیں کہ ایسی ماؤں اور انکے بچوں کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے انہوں نے پیچھے رہ جانے والے بچوں کے لیے ایک سپورٹ گروپ بنایا۔

انکا کہنا ہے کہ ماں کے سائے میں پرورش پانے اور کسی رشتے دار کے ساتھ رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ایسے بچے اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انکے گھر میں چلنے والی آفٹر سکول کلاسسز نے ان بچوں میں تبدیلی پیدا کی ہے۔

’ہم انکے ہوم ورک میں انکی مدد کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں بچے اپنی پڑھائی ٹھیک سے کریں، ہم انہیں سمارٹ کلاسسز کہتے ہیں اور اس کی مدد سے بچے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘

سپری ہاتی

سپری ہاتی نے سپورٹ گروپ بنایا ہے

یولی آفریانا سیفتری رات کی کلاس میں تاخیر سے پہنچیں۔ آفریانا کے پانچ بھائی بہن ہیں اور انہوں نے ابھی ان کے لیے رات کا کھانا تیار کیا ہے۔ ماں کے جانے کے بعد ان کی دادی ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں جو اب نہیں رہیں تو اب تمام ذمہ داری آفریانا اور انکے والد پر ہے۔

آفریانا کی ماں اس وقت انہیں چھوڑ کر گئی تھیں جب انکی سب سے چھوٹی بیٹی ایک سال سے بھی کم عمر کی تھی۔ کچھ عرصے وہ رقم بھیجتی رہیں لیکن پھر ان سے ہر طرح کا رابطہ ختم ہو گیا۔آفریانا کو نہیں لگتا انکے ساتھ کچھ بُرا ہوا ہے۔

دوسرے بچوں کی طرح آفریانا کو ماں سے علیحدگی کا دکھ نہیں ہے۔

‘مجھے بہت برا لگتاہے جب لوگ ہم پر ترس کھاتے ہیں کہ تمہاری ماں تمہارے پاس نہیں ہے۔ میں اپنے بھائی بہنوں کا خیال رکھتی ہوں اور ہمیں نہیں لگتا کہ ہمیں کسی طرح کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

میرے بھائی بہن بھی ہر چیز کے لیے والد کی جانب دیکھتے ہیں وہ گھر کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ آفریانا پڑھ لکھ کر انڈونیشیا کی نیوی جوائن کرنا چاہتی ہیں۔

انڈونیشیا کے دو تہائی تارکینِ وطن مزدور عورتیں ہیں اور جو رقم وہ کما کر بھیجتی ہیں اس سے آگلی نسل اپنے تمام خواب پورے کر سکتی ہے ۔

ایلی سوسیاوتی نے نو سال سے اپنی ماں کو نہیں دیکھا، لیکن اپنی ماں کی تنخواہ کے سبب وہ یونیورسٹی جانے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے۔

ایلی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ماں کی قربانیوں کو سمجھ سکتی ہے۔’ اگر میری ماں باہر جا کر کام نہ کرتی تو میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھی ایلی کہتی ہیں کہ انکی ماں دنیا کی سب سے طاقتور ماں ہیں۔

ماں بیٹی فیس ٹائم اور واٹس ایپ پر بات کرتی ہیں۔ایلی نے ویڈیو کال پر اپنی ماں مارثیا سے بات کروائی انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں جس خاندان کے لیے وہ کام کرتی ہیں وہ نیک لوگ ہیں اور انہیں وقت پر تنخوا بھی مل جاتی ہے۔

ایلی کہتی ہیں کہ انہیں اپنی ماں پر فخر ہے۔ جب میں نے ایلی کی ماں کو بتایا کہ انکی بیٹی انہیں دنیا کی سب سے اچھی ماں کہتی ہے تو ہنسی کے ساتھ مارثیا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

فون پر بات کرنے کے بعد ایلی کا کہنا تھا کہ تعلیم کی کمی کے سبب ہمارے والدین کو ہمیں چھوڑ کر جانا پڑا یہ بات مسلسل پریشان کرتی ہے، اگر مجھے باہر جا کر کام کرنا پڑا تو میں ملازم بن کر نہیں جاؤنگی بلکہ کاروبار کرنے جاؤنگی’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp