فریادی: مظلوم والدین سے لے کر سیاست دانوں تک


ہم تو گویا فریادیوں کے ملک میں رہتے ہیں۔ زنجیر عدل کو تو کوئی ٹکنے ہی نہیں دیتا۔ ادھر دیکھو کوئی باپ اٹھتا ہے اور واویلا کرنا شروع کر دیتا ہے کہ میری دس سالہ بیٹی غائب ہو گئی ہے اور اگر پولیس اسے بتانے کی کوشش کرے کہ تمھاری دس سالہ بیٹی خود ہی کسی (آشنا) کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی تو برا مان جاتا ہے۔ کئی اور لوگ بھی اس باپ کی فریاد میں شامل ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس مدد نہیں کر رہی۔ او بھئی پولیس اور کیا کرے جب کہ بچی کی میت (ڈیڈ باڈی) بھی ابھی تک سامنے نہیں آئی تو دس سالہ بیٹی کے صرف گم شدہ ہونے کو اتنا سیریس تو نہیں لیا جا سکتا۔

وہ (گم شدہ بیٹی کا باپ) سمجھتا ہے کہ پولیس اس کی ملازم ہے اور اسے فورا بیٹی کو ڈھونڈنے نکل پڑنا چاہیے۔ گم شدہ دس سالہ بیٹی کا باپ یہ بھی سمجھتا ہے کہ جیسے پولیس اس کی بیٹی کی حفاظت کے لیے بنی ہے۔ او بھئی ہوش کے ناخن لو۔ پولیس تمھاری بیٹی کی پیدائش سے پہلے بھی موجود تھی۔ موجودہ پولیس تو گوروں نے بنائی تھی حکمرانوں کی حفاظت کے لیے اور وہ اب بھی اپنا فرض نبھاتی ہے۔ اب بھی حکمرانوں کی حفاظت کرتی ہے اور کیا خوب کرتی ہے۔

صرف یہی نہیں وہ (گمشدہ دس سالہ بیٹی کا باپ) یہ بھی سمجھتا ہے کہ جیسے پولیس کے پاس چلتی ہوئی گاڑیاں ہیں اور ان میں پیٹرول بھی ہے۔ ان کے موبائل فون میں بیلنس بھی ہے اور جرائم کا سدباب کرنے کے لیے ان کی تربیت بھی کی گئی ہے۔ او بھئی ٹھیک ہے کہ پولیس وردی پہنتی ہے لیکن وہ ہماری نظریاتی سرحدوں کی محافظ نہیں ہے اس لیے پولیس کے پاس یہ سارے وسائل ہونے ضروری نہیں۔ جہاں وسائل ضروری ہیں وہاں ہیں اور وہیں کے لیے کافی ہیں۔

فریادیوں کے کچھ گروپس اور بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کو رمضان کے مہینے میں گوشت اور فروٹ کھانے کا شوق ہو جاتا ہے چناچہ وہ فریاد کرتے ہیں کہ ان چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرو۔ نوجوان اور ان کے والدین نوکریوں کی فریاد ڈال کے بیٹھے رہتے ہیں۔ تقریبا سارے ہی وہ لوگ جو مہنگا نجی سکول اور نجی ہسپتال افورڈ نہیں کرتے وہ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کے معیار کی فریاد ڈالے بیٹھے ہیں۔ کئی سالوں سے نظر آنے والے فریادی وہ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کی تصاویر فریم کروا رکھی ہیں اور وہ انہیں اٹھا کر ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے پیارے غائب ہیں۔ یہ سارے فریادی اہم ہیں اور ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم ٹویٹوں کی مدد سے ان فریادیوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔

فریادیوں کی ایک ذرا ہلکی قسم بھی ہے۔ اوریا مقبول جان اور زید حامد صاحبان کی فریاد یہ ہے کہ اسلام کی بڑی جنگ لیٹ کرنے کے لیے دشمن سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی بات بھی صحیح ہے۔ اب جب کہ دونوں جانب نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں تو پھر انتظار کاہے کا۔ چلو جنگ شروع کرو بس نیوکلیئر بم لال قلعے کے بہت قریب نہ گرے کیونکہ وہاں تو ہم نے فتح کا پرچم بھی لہرانا ہے۔

آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں فریادیوں کا خیال نہیں ہے۔ ہم سب کی فریادیں سنتے ہیں۔ اور ان میں کئی ایک کی مراد پوری بھی ہوتی ہے۔ کینیڈا سے آنے والے مولانا صاحب کی مثال ہی لے لیں۔ وہ آتے ہیں دارالحکومت کے عین درمیان میں کنٹینر لگا کر اپنا ڈیرہ خوب جماتے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اپنی فریاد شروع کرتے ہیں۔ سننے والے ان کی فریاد کو دماغ کی وسعتوں سے سمجھتے اور تجوری کی گہرائیوں سے ان کی مانگ پوری کرتے ہیں۔ مولانا صاحب اپنا واپسی کا ٹکٹ لیتے ہیں اور اگلے کچھ عرصے کے لیے چپ سادھ لیتے ہیں۔

فیض آباد کے فریادیوں کا بھی آپ کو یاد ہو گا جب انہوں نے پی ایم ایل نواز کی حکومت کو خوب ٹھیک کیا تھا۔ ان کی ہر فریاد پوری ہوئی تھی۔ کئی وزیروں کی نوکریاں گئیں۔ صرف یہی نہیں انہیں بھی کینیڈین علامہ صاحب کی طرح واپسی کا کرایہ بھی دیا گیا۔ لیکن اس حسن سلوک سے ان کی طبیعت مچل گئی اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھے۔ اپنا دائرہ کار سیاستدانوں اور اقلیتوں سے آگے لے گئے۔ شجر ممنوعہ پر ہاتھ ڈال دیا۔ صاف ظاہر تھا کہ سافٹ ویئر میں کوئی پرابلم ہو گئی ہے۔ پروگرامرز نے ان کے سافٹ ویئر میں کچھ ضروری تبدیلیاں کیں تو مکمل ہوش میں آ گئے۔ معافی مانگی اور آئندہ کے لیے بلاسفیمی کی دنیاوی قسم سے توبہ کر لی۔

پوری ہونے والی ایک اور فریاد پی ٹی آئی کی ہے۔ پی ٹی آئی نے شیخ رشید کو ساتھ ملا کر ایک لمبی فریاد ڈالی کہ دوسروں کو الیکشن جتواتے ہو تو ہمیں کیوں نہیں۔ ہم نے ان کی یہ خواہش پوری کر ڈالی اور دیکھو وہ الیکشن جیت کر بھرپور حکومت کر رہے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے انہوں نے کیے تھے اور ان وعدوں پر یقین آپ نے کیا تھا۔ ہمارا ایسی لغو باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون والوں کی فریادوں کا بھی مثبت جواب دینا تھا لیکن ڈان لیکس کو بھلانا آسان نہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik