کالا دھن سفید کروائیں اسکیم


قارئین محترم ہماری اور آپ کی زندگی ایک دائرے کا سفر ہے۔ ہر نئی حکومت ہمیں ایک اچھی حکومت دینے کا وعدہ کرتی ہے اور جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو یہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

موجودہ حکومت نے بھی اشرافیہ کو ٖ فائدہ پہنچانے کے لئے ”کالا دھن کو سفید کرنے“ کے لئے اعلان کر دیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اوپن پلاٹ، زمین، سُپر سٹرکچر اور اپارٹمنٹ ظاہر کرنے کے لئے ڈیڑھ فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اسکیم کے تحت 4 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر بے نامی گاڑیاں بھی ظاہر کی جا سکیں گی، پاکستانی کرنسی میں کھولے گئے بے نامی اکاونٹس میں موجود دولت پر 4 فیصد ٹیکس دینا ہوگا اور فارن کرنسی بے نامی اکاؤنٹ میں دولت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی 4 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ جب کہ اثاثوں کی ویلیو ایف بی آر کی مقررہ ویلیو سے 150 فیصد تک مقرر ہوگی۔

ایف بی آر کی جانب سے غیر ملکی اثاثے و دولت ظاہر کرنے کے لیے بھی الگ سے ڈیکلریشن فارم جاری کیا گیا ہے۔ غیر ملکی غیر منقولہ جائیداد ظاہر کرنے پر 4 فیصد ٹیکس دینا ہوگا، غیر ملکی لیکوئیڈ اثاثہ جات ظاہر کر کے واپس پاکستان لانے پر 4 فیصد ٹیکس دینا ہو گا اور لیکوئیڈ اثاثہ ظاہر کر کے واپس لانے نہ لانے پر 6 فیصد ٹیکس دینا ہوگا، ڈکلریشنز پر 30 جون 2019 تک ٹیکس ادائیگی کی صورت کسی قسم کا جرمانہ ادا نہیں کرنا ہوگا جب کہ کمپیوٹرائز پیمنٹ رسید پر ٹیکس کی رقم اور جرمانے کی رقم کی تفصیل بھی دینا ہوگی۔

تحریک انصاف کوئی پہلی حکومت نہیں جس نے ٹیکس اکٹھا کرنے کے نام پر ”اشرافیہ‘‘ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے کالے دھن کو تھوڑے سے پیسے ادا کر کے سفید کروا لیں۔ بد نصیبی تو یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنے اپنے وفاداروں کو نوازنے کے لئے ایسی اسکیموں کا اجرا کرتی ہیں۔ کمال بات تو یہ ہے کہ یہی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ایسی کسی بھی اسکیم کی مخالفت کرتی ہیں۔

تحریک انصاف کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی حکومتی لانڈری میں دُھل کر ”حلال کدے“ میں شامل ہو گئی ہے۔ کل تک حکمران جماعت جس ٹیکس ایمینسٹی اسکیم کو ٹیکس چوروں کے لیے ”مراعات“ قرار دے کر اس پر تنقید کرتی تھی اب وہ ”حلال“ ہو چکی ہے۔ ٹیکس چور، دو نمبر طریقے سے مال کمانے والے، چور ڈاکو، ایمان دار اور بے ایمان سب اپنا سارا پیسہ آرام سے حلال کر سکتے ہیں۔

بادی النظر میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات اور سوالات کو دبانے کے لیے حکومت نے فوری طور پر ٹیکس ایمینسٹی اسکیم نافذ کر دی ہے۔ تاکہ قوم ٹیکس ایمینسٹی اسکیم نامی ٹرک کی ”بتی“ کے پیچھے لگی رہے اور آئی ایم ایف سے معاہدے پر اٹھنے والا شور دبا رہے۔

اصل بات یہ ہے کہ جب حکمرانوں کے پاس عوام کے مسائل کا حل نہ ہو تو سوائے سبز باغ دکھانے کے ان کے پاس کچھ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ سبز باغ کچھ دن تک تو عوام کو بہلا سکتے ہیں لیکن انہیں مستقل بیوقوف نہیں بنا سکتے۔

حکمرانوں کے دھوکے سے معاشرے میں تلخی، مایوسی اور نا امیدی بڑھ جاتی ہے۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح عوام سے ہی قربانی مانگ رہی ہے۔ عوام سے قربانی کبھی معاشی استحکام کے نام پر اور کبھی ملک کی سالمیت کے معاملے پر مانگی جاتی ہے۔ کبھی عوام کو ان ظالموں کو برداشت کرنے کا ازالہ اللہ اگلے جہان میں میں ملنے والے فائدے اور امید پر دیا جاتا ہے۔ تو کبھی تھوڑے دنوں بعد ان کے حالات بدلنے کا دعوی سامنے آتا ہے۔ لیکن حقیقت بات یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ عوام کے مسائل کے بارے میں میں کچھ جانتی ہی نہیں ہے اور جب وہ جانتی ہی نہیں تو مسئلے کا حل کیسے نکالے گی؟

پورے کا پورا سرمایہ داری نظام کچھ لوگوں کو امیر بنانے اور زیادہ تر کو غریب رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ عام آدمی کو بہکایا جاتا ہے کہ جیسے ہی حکمران اشرافیہ کے ”پیالے“ لبالب ہوں گے اس کے بعد ان پیالوں سے جو بہے گا وہ ان تک پہنچے گا اور ان کے حالات بدلیں گے۔

آئی ایم ایف سے کیا گیا حالیہ معاہدہ اس تکلیف میں اضافہ کرے گا۔ وزیراعظم سوائے نعرہ لگانے کے کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ جنہوں نے قرض دیا ہے انہوں نے وصولی کے لئے اپنے بندے بھی مقرر کر دیے ہیں۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے پہلے ہی اپنے 9 ماہ میں جو اقدامات لیے ان سے یوں لگتا ہے کہ یہ حکومت محنت کشوں اور غریبوں کے خلاف جنگ چھیڑ چکی ہے۔ دکھ والی بات تو یہ ہے ہے کہ اس حکومت سے پہلے بھی جتنی حکومتیں تھیں انہوں نے اس ظالمانہ نظام کو بچانے میں اپنا حصہ خوب ڈالا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے نہ صرف قرض لیا بلکہ اس کی پالیسیاں عوام پر مسلط کی اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے۔

مسلم لیگ (ن لیگ) کا تو کیا ہی کہنا، یہ جماعت تو ہے ہی سرمایہ داروں، بڑے بڑے دکانداروں اور ٹھیکیداروں کی۔ ان کا نصب العین تو اپنے سرمائے کا تحفظ ہے۔ رہی بات تحریک انصاف کی، تو یہ پارٹی نودولتیوں کی پارٹی ہے جو ان کے لیڈروں کی باڈی لینگویج، کردار اور گفتگو سے سے نظر آتا ہے۔ رہی بات ملکی میڈیا کی وہ بھی اس نظام سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ ان کے کارپوریٹ مالکان اس نظام میں اپنی منافع خوری کے نئے راستے نکال رہے ہیں اور اس نظام کو بچانے میں سیٹھ مافیا کو بھرپور تعاون دے رہے ہیں۔

پاکستان کی پچاسی فیصد آبادی تڑپ بھی رہی ہے اور نفرت کی آگ میں جھلس بھی رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ اور اس نظام سے انتقام کی شدت کا لاوہ ان میں دہک رہا ہے۔ اگر حالات یوں ہی رہے تو پھر معاملہ کسی ایک جماعت یا گروپ کے ہاتھ میں نہیں رہے گا اور عوام خود اپنا حصہ لینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے اور انہیں کسی لیڈر کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).