اڑن کھٹولے میں اڑنے کا شوق


ہواؤں میں اڑنا ہر کسی کا شوق رہا ہے۔ لیکن یہ بہت مہنگا شوق ہے اسے ہر کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ اسے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر بھی پورا کیا جا سکتا ہے یا ہوائی جہاز چلا کر اس کے لئے سواری کا ذاتی ہونا ضروری نہیں۔ پیرا گلائیڈرز بھی اس شوق کو پورا کرتے ہیں لیکن اتنی بلندی سے محض اڑنے کا شوق پورا کرنے کے لئے چھلانگ لگانا منچلوں کا سودا ہو سکتا ہے ہم جیسے کمزور دل والوں کے بس کی بات نہیں۔ بچپن میں جب عمرو عیار کی کہانی پڑھتے تو خواہش کرتے کاش ہم بھی عمرو کے ساتھ اڑ سکیں۔

اڑنے کی تمنا میں ہم اس جادوگر کی قید میں جانے کے لئے بھی تیار ہو جاتے جس سے بچانے عمرو اپنی زنبیل کے ساتھ اڑن کھٹولے پر ہمیں لینے آتا۔ بچپن میں جب کبھی ہماری چھت سے گزرتے جہاز کی گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی ہم بھاگم بھاگ چھت پہ جاتے اور اڑتے جہاز کو اس وقت تک دِیکھتے رہتے جب تک اس کی آواز سنائی دیتی رہتی اتنی بلندی پر اڑتابہت بڑا جہاز ہمیں بہت چھوٹا دکھائی دیتا۔ کبھی کبھار چھوٹا اڑن کھٹولا (ہیلی کاپٹر) بھی گھر کی چھتوں پر پرچیاں گراتے گزرتا ہم تب بھی آواز سن کر چھت پر دوڑ لگاتے، اسے دیکھ کر زور زور سے ہاتھ ہلاتے، خوش ہوتے، ہماری اس خوشی میں سارے محلے کے بچے شامل ہوتے تھے اور خواہش کرتے کاش ہم بھی اس میں بیٹھ کر اڑ سکیں۔

خواہش ہوتی کاش یہ اڑن کھٹولا ہماری چھت پر اترے اور ہمیں بٹھا کر لے جائے اور ہم بھی اڑنے کا شوق پورا کر لیں۔ اماں کہتی اگر اڑنے کا شوق ہے تو اس کے لئے پڑھنا پڑے گا تاکہ اڑنے کے لئے جہاز چلا سکو۔ بھائی اکثر بھولی ماں کو سمجھاتا کہ اڑنے کے لئے ضروری نہیں کہ جہاز چلایا ہی جائے اس کے لئے جہاز میں بیٹھا بھی جا سکتا ہے اور اگر خود جہاز بن جائی۔ یں تو بھی اڑا جا سکتا ہے اس کے لئے پڑھنا شرط نہیں۔ مغرب والے جہازوں کے علاوہ اڑنے والی گاڑیاں بھی تیار کررہے ہیں جبکہ آج سے کتنے سال پہلے نائٹ رائیڈر میں مائیکل کی گاڑی اڑتی تھی۔

ہالی اور بالی ووڈ کی فلموں میں موٹر سائیکل کو اڑتا دکھا کر آٹو انجینئیرز کو ایک نیا تارگٹ دے رکھا ہے کہ خالی جہاز نہیں اڑ سکتے تھوڑی سی محنت کرو تو موٹر سائیکل بھی اڑنے کا کام کر سکتی ہے۔ لالی ووڈ کا نام اس لئے نہیں لیا کہ اس میں سلطان راہی کا گھوڑا اور شان دونوں شانِ بے نیازی اس قدر اونچی اڑان بھرتے کہ آدھا شہر ایک اڑان میں پار کر جاتے اور جہاز بنانے والی کمپنیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے۔ چند سال پہلے انڈیا کے ایک گلوکار اپنے بیٹے کی بارات ہیلی کاپٹر میں لے کر گئے تو ہم نے سوچا ”وڈے لوکاں دیاں وڈیاں گلاں“ لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ اڑن کھٹولا تو ہمارے ملک میں عام ہی ہو جائے گا۔

پچھلے دنوں ایک صاحب کے اڑنے کا خوب چرچا رہا۔ مزے کی بات کہ وہ صاحب اکیلے نہیں اڑتے تھے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے اڑتے۔ اور جن کو لے اڑتے اُن کے ساتھی افسوس میں پائے جاتے کہ اگر اڑان ہی بھرنا تھی تو ہمیں بھی لے اڑتے۔ ایسے نیچے رہ جانے والے صاحبان آہیں بھرتے اور صدائیں دیتے سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنے کاپٹر والے آ۔ ہمارے سابق وزرائے اعظم بھی اڑنے کے کافی شوقین رہے ہیں وہ اگر اڑتے تو اپنے ساتھ دودو سو بندوں کے اڑنے کا شوق بھی پورا کر دیتے۔

موجودہ وزیرِاعظم بھی اڑنے کے شوقین پائے گئے ہیں۔ وہ اڑنے کے اس قدر شوقین ہیں کہ دن میں دودو بار اڑتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر عوام بھی اڑنے کے خبط میں مبتلا ہوگئی ہے۔ خاص کر جب سے عوام نے اڑن کھٹولے کے فیول کی قیمت سنی ہے۔ بڑے تو بڑے بچے بھی اب اڑنا ہی پسند کرتے ہیں۔ وہ پارک جاکر جھولے پہ بیٹھنے کی بجائے اصلی والے اڑن کھٹولے پر بیٹھنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ میری پڑوسن اس اڑن کھٹولے کی وجہ سے طلاق لینے پر تُل گئی ہے کہ اگر وزیرِ اعظم اپنی بیگم کے ایک اشارے پر اڑتا ہوا گھر پہنچ سکتا ہے تو میرا میاں کیوں نہیں۔

کئی بیویاں ناراض ہو کر میکے جا بیٹھی ہیں کہ اب تو مجھے اُڑ کر ہی لینے آؤ آخر پٹرول لگتا ہی کتنے کا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ کچھ شوہر حضرات کی طرف سے وزارتِ ہوا بازی کو درخواست دی گئی ہے کہ یا تو اڑن کھٹولے کے سفر پہ اٹھنے والے اخراجات کی رپورٹ عوام میں عام کی جائے یا پھر ہماری بیویوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جائے۔ ہمارِے ملک میں یہ اڑن کھٹولا بہت عام ہورہا ہے۔ اتنِاُ عام کہ ممکن ہے محبوباؤں کے ارجنٹ دیدار کے واسطے اور بیویوں کے پُرزور اصرار کے باعث اس سفر کو عوام الناس کے لئے عام کر دیا جائے گا یہ بھی ممکن ہے کہ میٹرو سٹیشن بند کر کے اڑن کھٹولا سروس شروع کرنی پُڑجائے۔

اس سے بہت سے فائدے ہوں گے۔ ایک تو اس سے وقت کی بچت ہوگی۔ لیٹ اٹھنے والے حضرات دفاتر میں جلدی پہنچ جایا کریں گے۔ دھرنوں، جلسے جلوسوں میں دورانِ احتجاج میٹرو سٹیشن بند نہیں کرنا پڑیں گے۔ ریاست کا کاروبار چلتا رہے گا۔ پتھراؤ کی صورت بسیں ٹوٹنے سے بچ جائیں گی۔ جو کوئی اُڑن طشتری کو توڑنے کے لئے پتھراؤ کرے گا تو پتھر واپس آنے کی صورت میں اپنا ہی نقصان کرے گا نہ کہ حکومت کا۔ خواتین تو پہلے ہی ہواؤں میں اڑتی ہیں کبھی ان کا لال دوپٹہ ہوا میں اڑتا ہے تو کبھی یہ خود صبیحہ خانم کی شکل میں گنگناتی پھرتی ہیں میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال۔ اور اب تو یہ خواہش مردوں نے بھی پال لی ہے وہ بھی کسی پارک میں محبوبہ سے ملتے وقت ہنگامی حالات میں فرار کے لئے اڑن کھٹولے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے یہ اڑن کھٹولا کس کروٹ بیٹھتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).