اک ذرا حسن کی وادی بونر تک


شاہراہ قراقرم پر دریائے سندھ کے دائیں طرف چٹانوں پر کندہ قدیم تہذیبوں کے خزانے سے گزر کر گلگت کی طرف سفر کریں گے تو ایک چھوٹا سا گاؤں گنی آئے گا بہت سی مسافر گاڑیاں اور ٹرک کھڑے نظر آئیں گے۔ گنی ہوٹل میں جس نے کھانا نہیں کھایا اس کے لئے اس سفر کا اصل سواد حاصل ہونا ممکن نہیں۔ گنی سے گزر کر آگے جائیں گے تو ایک میدانی گاؤں بونر داس آئے گا۔ یہاں سے آپ کو ٹویاٹا جیب پر پھولوں، آبشاروں، حسیں نظاروں کی سر زمین بونر کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ آج سے کچھ برس پہلے تک دنیا کا یہ خوبصورت گاؤں سڑک کی سہولت سے محروم تھا۔

میں اکثر پیدل تین سے چار گھنٹے کا سفر طے کر کے اپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر حاضری دینے اور بونر نشکن میں اس مکان کی چھت پر کچھ دیر گزار کر چشم تصور میں اپنے بچپن کے سنہری دور کو یاد کرتا تھا جس مکان میں یکم اکتوبر 1981 کو میں نے آنکھ کھولی۔ گھر سے ذرا فاصلے پر باغ میں بوڑھے اخروٹ کے درخت کی چھاوں میں سستا کر اپنے بچپن میں لوٹنے کی سعی کرتے ہوئے مٹی کے گھروندے بناتا۔ ا پنی جنم بھوبی سے محبت کے جذبے میں غوطے کھا کر جب بھی واپسی کا قصد کرتا تھا مجھے محسوس ہوتا کہ اس زمیں کا چپہ چپہ میرے قدموں سے لپٹ کر کہہ ریا ہوتا کہ اے اس زمیں کے فرزند اپنی زمیں کو چھوڑ کر نہ جا۔

لیکن میں کیا کرتا آج سے برسوں سے پہلے میرے والدین کے ساتھ مجھے حصول تعلیم کے لئے اس زمیں کی جدائی سہنا پڑی۔ بدقسمتی سے آج بھی بونر تعلیم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ شینا زبان کا محاورہ جس کا ترجمہ ہے، گندم کا دانہ سفر کرتے کرتے واپس اپنے کھیت میں آتا ہے، نہ معلوم گندم کے دانے کی طرح کب میں اپنے کھیت بونر میں جا کر بسوں، فی الحال تو اپنے وطن سے دور ہوں وطن سے جب بھی کوئی آتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ

میرا پچپن بھی ساتھ لے آیا

گاؤں سے جب بھی آگیا کوئی

خیر بات میرے پچپن کی طرف لوٹ گئی، مقصود بونر کی خوبصورتی بیان کرنا ہے۔ جیسے ہی شاہراہ قراقرم سے جیب میں سفر کرتے ہوئے بونر میں داخل ہوں گے پہلا گاؤں دیامری آئے گا اسی گاؤں سے ایک راستہ (دیامر) نانگا پربت کو مقامی زبان میں دیامر کہا جاتا ہے کی طرف جاتا ہے، نانگا پربت کے مقامی نام دیامر کی نسبت سے ہی ضلع کا نام رکھا گیا ہے، دیامری گاؤں سے ایک راستہ دیامر کی طرف جبکہ دوسرا راستہ برئے نالہ، مٹھاٹ نالہ اور جل ہرئی نالہ کی طرف جاتا ہے۔ اگر آپ نے نانگا پربت کے دامن میں دنیا کے خوبصورت گوشے دیامر کے حسن کا نظارہ کرنا ہے تو دیامری سے دیامر گاؤں کی طرف سفر کریں۔

ٹھہرئے، حسن کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے جسے ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لاوزوال حسن کی قیمت یہ ہے کہ یہاں سے آگے سڑک نہیں ہے اور آپ نے پیدل سفر کرنا ہے اسی راستے پر سفر کرتے ہوئے آپ نانگا پربت کے بیس کیمپ تک پہنچیں گے، اس پورے راستے میں قدرت نے جا بجا حسن ایسا بکھیرا ہے کہ جو موجد کائنات کا منکر ہے وہ بھی پکار اٹھے گا کہ، کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ دیامر گاؤں سے گزرتے ہوئے آپ نانگا پربت کے بیس کیمپ تک پہنچیں گے اور یہاں سے ہی برف، گلیشئر اور خوبصورت نظاروں سے مزین ایک راستہ نانگا پربت کے دوسرے بیس کیمپ استور روپل تک جاتا ہے، تھوڑا سا سفر اور کریں گے تو، مستنصر حسین تارڑ کے مطابق دنیا کے سب سے خوبصوت گاؤں تری شنگ کے حسن میں کھو جائیں گے۔

اب ہم دوبارہ آپ کو دیامری گاؤں لے کر جانا چاہتے ہیں کیونکہ بونر کا اصل حسن دیکھنا ہے تو اسی دیامری سے ایک راستہ برئے نالہ کی طرف جانا ہے اس راستے پر ایک گاؤں نشکن آتا ہے جو راقم کی جنم بھوبھی ہے۔ نشکن سے آگے چھورو ڈاٹ، واہ کیا خوبصورت نظارہ ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے حسن کو دیکھنے کے لئے چھورو ڈاٹ کے گھنے جنگل کے اوپر چھائے بادلوں کی اوٹ میں پریوں کی بارات آئی ہے، چھورو ڈات کے حسین نظاروں سے گزر کر آگے کی طرف سفر کریں گے تو پلوئی گاؤں آئے گا اس گاؤں کی خوبصورتی بھی اپنی مثال آپ ہے یہاں سے ایک راستہ برئے سے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر کے علاقے کیل تک جاتا ہے اور دوسرے راستے سے سفر کریں گے تو بابو سر پہنچیں گے اور تیسرے راستے پر سفر کریں گے تو گارول سے ہوتے ہوئے جل ہرئے کو کراس کرتے ہوئے برفیلے راستوں سے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر وادی نیلم کے آخری گاؤں دومیل پہنچیں گے۔ دومیل سے تین سے چار گھنٹے کی مسافت طے کرتے ہوئے شونٹر پاس سے آپ استور کے علاقے شو داس اور میر ملک رٹو سے ہوتے ہوئے استور شہر جا سکتے ہیں۔

میں اس راستے سے اپنے والد مرحوم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے استور گیا ہوں یقین کریں حسن کی جو رعنانیاں میں نے دیکھیں وہ کہیں اور نہیں، نشکن، پلوئی سے ہوتے ہوئے آپ کیل کی طرف سفر کر تے ہوئے برئے نالہ سے گزریں گے جا بجا دنیا کے نایاب پھولوں کی قدرتی بنی کیاریاں، آبشاریں، گھنے جنگلات، خوبصورت پرندوں کی چڑچڑاہٹ، سر سبز میدان، صاف شفاف نیلے پانیوں سے گزریں گے تو دل ایسے مچلتا ہے کہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ سفر تمام نہ ہو اور یوں ہی حسن کے ان نظاروں میں کھوئے رہیں۔

اب دوبارہ دیامری گاؤں کی طرف آتے ہیں یہاں سے ایک راستہ حللے گاؤں سے ہوتے ہوئے مھٹا ٹ گاؤں سے نیاٹ تھک سے ہوتے ہوئے بابو سر تک جاتا ہے ”، ٹھہرئے اسی مٹھاٹ گاؤں میں ایک تاریخی مسجد کے بارے میں میں جانتے ہوئے جائیں یہ مسجد بونر میں آمد اسلام کے ابتدائی دور کی ہے، میرے والد صاحب کہتے تھے کہ آج سے قریبا دو یا تین سو سال قبل ہمارے آباؤ اجداد الائی سے تبلیغ دین کے سلسلے میں بونر آئے اور یہاں مھٹاٹ گاؤں میں پہلی مسجد تعمیر کی گئی جس کے لکڑی کے ستون اتنے بڑے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس دور کے انسانوں میں کتنی طاقت اور مہارت تھی کہ پورے پورے دیو ہیکل درخت اٹھا کر لائے گئے اور بہت خوبصورتی سے تراش کر ستون بنائے گئے۔ یہ مسجد آثار قدیمہ اور بہترین طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شاہکار کو محفوظ کیا جائے۔

حسن کی یہ و ادی آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے حکومتی سطح پر اس وادی بے مثال کے لئے بے توجہی سوالیہ نشان ہے، البتہ اس وادی کی سیاحتی اور تعلیمی ترقی کے لئے بونر کی جن شخصیات نے عملی کام کیا ہے ان میں سر فہرست لیور خان ہیں جن کی کاوشوں سے سالانہ بین الاقوامی سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں اور لیور خان نے ہی بونر کی پسماندگی دور کرنے کے لئے کئی سکول بنائے ہیں جو مفت تعلیم دیتے ہیں، اسی طرح سیاحتی تر قی کے لئے، سوال فقیر، سمندر خان محمد وکیل اور فدا کے نام بھی سر فہرست ہیں۔

یہ تھا گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی بونر کا مختصر سا تعارف۔ یہ وادی حسن کی اک لازوال تصویر ہے لیکن شاہراہ قراقرم سے چند کلو میٹر تک سڑک کی سہولت ہے باقی نانگا پربت کے بیس کیمپ جا نا ہو یا برئے سے گزر کر آزاد کشمیر پیدل راستہ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حسن کی شاہکار وادی بونر سے کیل تک سڑک کی تعمیر یقینی بنائی جائے اور زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کر کے سیاحت کو ترقی دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).