کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد


”ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں تمھارے؟ دیکھ کر کام نہیں کر سکتی؟ “ فیروزوالہ کی رہائشی، خاتون نے اپنی 10 سالہ ملازمہ ”جینا“ کو بری طرح جھڑکنے کے بعد اس پر کھولتا ہوا پانی پھینک دیا۔ مزید یہ کہ اس جارحانہ عمل کے بعد بھی جینا کو آہنی سلاخ سے مارا پیٹا گیا۔ بعد ازاں، اس کو ہسپتال لے جانے کے بجائے، شاہدرہ چوک پر بے یار و مددگار پھینک دیا گیا۔ ابتدائی طبی امداد نہ ملنے پر بچی کا ستر فیصد جسم جھلس گیا۔ اس تشدد کی جو وجہ سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ملازمہ سے اس خاتون کے ”قیمتی ڈنر سیٹ“ کی ایک پلیٹ ٹوٹ گئی تھی۔ خاتون کے نزدیک یہ ایک ناقابل معافی عمل تھا، جس کے بعد بیچاری ملازمہ کو سبق سکھانا ضروری تھا۔

اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، پاکستان میں گھریلو ملازمین پر تشددکے متعدد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

یہ سب دیکھنے اور سننے کے باوجود بھی ہم خاموش رہتے ہیں کہ ہمیں اس سب سے کیا لینا دینا۔ لیکن کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے برابر ہوتا ہے۔

چند دن قبل، نوشہرہ ورکاں میں بارہ سالہ بچی سے کپڑے استری کرتے ہوئے مالکن کی ایک قمیض جل گئی۔ جس کی پاداش میں اس پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ معصوم بچی کے پیٹ اور کمر پر استری لگائی گئی تاکہ وہ اگلی دفعہ دھیان سے کام کرے۔ اس تشدد کے بعد گلا گھونٹ کر اس کو مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔

کیا یہ ایسا واقعہ ہے کہ ہم سب خاموش رہ کر اس غریب کا تماشا دیکھتے رہیں؟ وہ شخص جس کی بیٹی اس تشدد کی آگ میں جھلس رہی ہے، کیا آپ اس کا درد محسوس کر سکتے ہیں؟ ہم میں سے اگر کسی کا ذرا سا ہاتھ بھی جل جائے تو ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے پورا گھر سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور وہ معصوم بچی جو ستر فیصد جھلس چکی ہے مگر مجبور ہے۔ مجبور ہے کیونکہ وہ امیر نہیں ہے۔ مجبور ہے کیونکہ آپ کی طرح کوئی اس کی پشت پناہی کے لیے موجود نہیں ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر آواز بلند کرے گی تو اس سے اس کی آواز ہی چھین لی جائے گی۔ اسے معلوم ہے کہ موجودہ نظام اور معاشرے سے انصاف کی توقع رکھنا تو ویسے ہی فضول ہے۔

ملتان کے محلہ قدیرآباد کے رہائشی ایڈوکیٹ کے گھر تین سال سے کام کرنے والی ”سارا“ کو مار مار کر ادھ موا اس لیے کر دیا گیا کیونکہ وہ جہاں کام کرتی تھی ان لوگوں کو شک تھا کہ سارا کے اندر جن ہے۔

اور صرف یہی نہیں، گھر میں کام کرنے والے بعض بچوں کو مارنے پیٹنے کے ساتھ ساتھ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ مگر چونکہ وہ غرباء کے بچے ہیں تو کوئی ان امیر مالکان کے خلاف آواز اٹھانا پسند نہیں کرتا جو اس سب کے ذمہ دار ہیں۔

ہمارا میڈیا کیوں خاموش ہے؟ کیا یہ کوئی معمولی مسئلہ ہے؟ کیا غریب لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا اس پر ظلم کرنا درست ہے؟

وہ امیر لوگ جو خود کو خدا سمجھ کے بیٹھے ہیں، جو غصے میں کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، کیا ان کو اس طرح معاف کر دیا جانا چاہیے؟

ہمارے حکومتی ادارے اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ ہر طرح کا ثبوت ہونے کے باوجود بھی مجرم کو سزا دینے سے قاصر ہیں۔ اس طرح ہی چلتا رہا تو جرائم کی سزا حد سے تجاوز کر جائے گی اور ملک میں کہرام مچ جائے گا۔

میری آپ سب سے درخواست ہے کہ ان مجبور لوگوں کی آواز بنیں جو اپنے پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).