لندن کے ہیرڈز سٹور سے16 ملین کی خریداری، لندن میں جائیداد ضبط ہونے کا خطرہ


بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لندن میں ایک عورت نے دس سالوں کے عرصے میں لندن کے مہنگے سٹور ہیررڈ سے سولہ ملین پونڈز کی شاپنگ کی لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔

اس خاتون کا تعلق آذربائیجان سے ہے اور وہ برطانیہ میں انسداِدِ بدعنوانی کے نئے قانون ‘ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر’ (وہ دولت جس کی وضاحت نہ کی گئی ہو) کا پہلا نشانہ بننے والی پہلی خاتون جو اب لندن میں اپنا 15 ملین پاؤنڈ کا گھر اور ایک گالف کورس بچانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

ضمیرہ حاجی ایوا کا تعلق آذربائیجان سے ہے اور ان کا شوہر جہانگیرہاجیوا آذربائیجان کے سرکاری بینک کے سربراہ تھا جس کے جاری کردہ کریڈٹ کارڈز پر ضمیرہ حاجی ایو لندن میں شاہانہ طرز رندگی گذارتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

پرتعیش زندگی کی وضاحت طلبی کا نیا برطانوی قانون متعارف

پارک لین سمیت تمام مشکوک جائیدادیں تحقیقات کی زد میں

جہانگیر حاجی ایوا انٹرنیشنل بینک آف آذربائیجان کے سابق چیئرمین ہیں۔ انھیں سنہ 2016 میں دھوکہ دہی اور مال غبن کرنے کے مقدمے اور بینک سے کئی ملین پاؤنڈ غائب ہوجانے کے جرم میں 15سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ انھیں 39 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

ضمیرہ حاجی ایوا نے مقدمہ شروع کے وقت کوشش کی تھی کہ ان کا نام مخفی رکھا جائے لیکن عدالت نے بی بی سی کی درخواست پر ضمیرہ حاجی ایوا کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت دے تھی۔

ضمیرہ حاجیوا نے شاپنگ کے لیے 54 کریڈٹ کارڈز کا استعمال کیا جن میں 34 کارڈز اس بینک سے جا ملتے ہیں جس کی سربراہی ان کے شوہر کرتے تھے۔

نیشنل کرائم ایجنسی کی جو دستاویزات بی بی سی نے دیکھی ہیں، ظاہر کرتی ہیں کہ ضمیرا حاجی ایوا کس طرح شاپنگ کرتی رہیں اور ان کا دولت تک رسائی کا پیچیدہ طریقہ کار بھی دیکھا ہے۔

ضمیرا حاجی ایوا کی لندن میں جائیدادیں آف شور کمپنیوں نے خریدیں۔

ضمیرہ حاجی ایوا اگر لندن ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں ہار جاتی ہیں تو انھیں نہ صرف مہنگی جائیدادوں سے ہاتھ دھونے پڑے گا بلکہ انھیں آذربائیجان کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ آذربائیجان نے ان کی حوالگی کی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق حاجی ایوا کے پاس بظاہر کوئی جائز ذریعہ آمدن نہیں ہے۔

نیشنل کرائم ایجنسی نے ترانوے صحفوں پر محیط ہیرڈز کے بلوں کا جائزہ لے کر ان کی روزانہ شاپنگ کا پتہ چلایا جس کے تحت وہ اوسطاً یومیہ چار ہزار پونڈ کی شاپنگ کرتی رہیں۔

ہیرڈز سٹور

ہیرڈز کا شمار لندن کی سب سے مہنگی اور پرتعیش دکانوں میں ہوتا ہے

دستاویزات کے مطابق ضمیرہ حاجی ایوا نے 29 ستمبر 2006 سے 14 جون 2016 کے درمیان 16,309,077.87پونڈ کی شاپنگ اور ان میں چھ ملین پونڈ ان 35 کریڈ کارڈز سے خرچ کیے گئے جو آذربائیجان کے اسی بینک سے جاری ہوئے جس کی سربراہی جہانگیر حاجی ایوا کرتے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہیرڈز سٹور پر کسی کو شبہ نہیں ہوا کہ اس گاہک کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔

ہیرڈز نے بی بی سی کو جاری کیے گیے ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے تفتیش میں مکمل تعاون کیا ہے اور ان کا سٹور منی لانڈرنگ سے متعلق قوانین کی مکمل پاسداری کرتا ہے۔

ہیرڈزکے ترجمان نے کہا کہ ان کی کپمنی پر قوانین پر عمل پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کا کبھی ذکر تک نہیں ہوا۔

نیشنل کرائمز ایجنسی کی تفتیش کا مرکز ضمیر حاجی ایوا کی ہیرڈز میں کی گئی شاپنگ نہیں ہے بلکہ ان کی ساری توجہ ضمیرہ حاجی ایوا کی لندن میں جائیداد اور برکشائر گالف کورس ہیں۔

اگر ضمیرہ حاجی ایوا یہ ثابت نہ کر سکیں کہ انھوں نے یہ دولت جائز ذرائع سے حاصل کی ہے تو انھیں لندن کی جائیداد اوربرکشائر گالف کورس سےہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

عدالت میں پیش کی گئی تفیصلات کے مطابق انھوں نے مہنگے زیورات، پرفیوم اور گھڑیوں کی خریداری پر ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ خرچ کیے۔ اگلے روز انھوں نے 18 سو پاؤنڈ کی شراب خریدی جبکہ ایک اور موقعے پر انھوں نے کارٹیئر زیورات پر ایک لاکھ پاؤنڈ اور مردوں کے استعمال کی اشیا پر 20 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ دس سال قبل برٹش ورجن آئی لینڈ میں واقع وکس برگ گلوبل نامی کمپنی نے لندن میں ہیرڈز سٹور سے چند قدم دور ایک بڑے گھر کی خریداری کے لیے 11.5 ملین پاؤنڈ ادا کیے تھے۔

برٹش ورجن آئی لینڈز میں قائم کمپنی وکس برگ گلوبل کا ایک ڈائریکٹر ایلمر بغرزادے ہیں جن کا تعلق آذربائیجان سے ہے۔ اسی شخص کےنام ایک اور کمپنی برکلے بزنس ہے جس نے 33 ملین پاؤنڈز سے ایک پرائیوٹ جیٹ خریدا۔

دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل کرائمز ایجنسی کے تفتیش کار کافی محنت کے بعد یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ یہ جائیداد مسز حاجی ایوا اور ان کے شوہر کی ملکیت ہے۔

سنہ 2013 میں مسز حاجی ایوا کی ایک اور کمپنی نے برکشائر میں مل رائیڈ گالف کلب خریدنے کے لیے دس ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم خرچ کی۔

واضح رہے کہ برطانوی ہوم آفس نے امیر سرمایہ کاروں کے لیے ویزا سکیم کا اجرا کیا تھا جس کے تحت اس جوڑے کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔

نیشنل کرائمز ایجنسی نے کہا ہے کہ انھیں ضمیرہ حاجی کے بینک اکاؤنٹ میں جمع 27 ہزار پونڈ پر آنے والے سود کے علاوہ ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

ضمیرہ حاجی ایوا نے اپنے ویزہ کی درخواست کے ساتھ ایک ملین پونڈ مالیت کا حکومتی بانڈ پیش کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ رقم اسے اپنے شوہر سے ملی تھی۔

ویزہ کے اجرا کے پانچ بعد جہانگیر حاجی ایوا نے برطانیہ کے ہوم آفس کو ایک خط کےذریعے بتایا تھا کہ ان بیوی کے پاس کافی فنڈز موجود ہیں۔

اس کے کچھ عرصے بعد جہانگیر حاجی ایوا کو آذربائیجان میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ضمیرہ حاجی ایوا کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

انھوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ چونکہ ان کے شوہر جیل میں بند ہیں وہ اپنا اور اپنےشوہرکا دفاع نہیں کر پا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ان کےشوہر جیل میں ہیں اس وہ ایسی تفصیلات عدالت کو مہیا نہیں کر سکتیں کہ وہ جائز اور کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔

جہانگیر ہاجییوا

جہانگیر حاجی ایوا کو آذربائیجان میں بینک سے کئی ملین پاؤنڈ غبن کرنے کے جرم میں 15سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں

نیا قانون کیا کہتا ہے؟

اس قانون کا مقصد مشتبہ بدعنوان غیر ملکی اہلکاروں کو نشانہ بنانا ہے جنھوں نے ممکنہ طور پر برطانیہ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔

نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقاتی ٹیم کا خیال ہے کہ کرپشن کی رقم سے برطانیہ میں اربوں پاؤنڈ کی جائیدادیں خریدی گئی ہے لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ان جائیدادوں کے مالکان پر مقدمہ چلانا یا اثاثوں کو ضبط کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

نئے قانون کے مطابق ایسے مالکان کو بتانا ہو گا کہ ان کی دولت کا ذریعہ کیا ہے۔

اگر کوئی بدعنوان غیر ملکی اہلکار یا اس کا خاندان دولت کا جائز ذریعہ نہیں بتا سکے گا تو نیشنل کرائم ایجنسی ہائی کورٹ میں ایسی جائیداد کی ضبطی کی درخواست کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp