وزیرستان کا سنگین ہوتا مسئلہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟


مختلف ذرائع سے آنے والی خبروں کے مطابق شمالی وزیرستان واقعے کے بعد حالات انتہائی خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں جہاں سے بچا جاسکتا ہے لیکن اس وقت لگتا ہے کہ حکومتی نا اہلی کی وجہ سے فریقین بند گلی میں ہوں گے۔ بعض خبروں کے مطابق شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز نے حالات کو بہتر کرنے کے لئے کچھ اقدامات اٹھانے کی کوشش کی ہے جیسے واقعے میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے پاس جانے کی کوشش کی وغیرہ لیکن دوسری طرف سے فی الحال کوئی مثبت جواب نہیں ملا جس کی توقع بھی ہونی چاہیے تھی کیونکہ لوگ انتہائی غم میں ہیں اور ایک ایسے ماحول میں جب سب کچھ انہی پر تھوپا گیا اور اب تک نا اہل میڈیا و دیگر سوشل میڈیا سائٹس اس آگ کو ہوا دینے میں مگن ہیں۔

اس سلسلے میں کچھ گزارشات عرض کررہا ہوں کہ شاید کوئی سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس وقت فورسز کی سوچ یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے چیک پوسٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش ہوئی تھیں وغیرہ جبکہ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ ہمیں سیدھی فائرنگ کرکے مارا گیا، اسی طرح لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر احتجاج کررہے تھے اور فریق دوئم اس کے بالکل برعکس سوچ رہا ہے جو کہ اس غلط فہمی کی بنیاد ہے جو آپریشنوں کے بعد سے مسلسل سامنے آرہی ہے۔

واقعے کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی یہ ہورہی ہے کہ اس کو پی ٹی ایم کا نام دیا جارہا ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ یہ پی ٹی ایم یا کسی تنظیم کا مسئلہ نہیں مقامی آبادی اور قبائل کا ہے۔ اسی طرح کے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ ریاستی سطح پر کچھ فیصلے ہوئے ہیں جو ان حالات میں انتہائی غلط ثابت ہو سکتے ہیں جس کے بارے میں صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بھی کل بات کی ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات میں پی ٹی ایم کے حوالے سے اہم فیصلے ہوئے ہیں اور آئندہ کچھ دن بہت اہم ہیں۔

جناب والا شوکت یوسفزئی یا ان وزراء کا ان حالات اور زمینی حقائق سے دور دور تک کا واسطہ نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہمیشہ نقصان موقع پرستوں کی وجہ سے ہوتا آیا ہے جو عین ایسے حالات کے وقت تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی نہایت ضروری ہے لیکن اگر ہم قانون و آئین کو صرف اپنے خواہشات کے مطابق استعمال کریں گے تو اس سے نظام ایسے بن جاتے ہیں جس طرح اس وقت ہمارے ملک میں ہے۔

موجودہ مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے کچھ اقدامات ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کا نظام پر بھروسا بنے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک لویا جرگہ تشکیل دیا جائے جس میں پنجاب کے سیاسی لیڈر شپ چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے ان میں سے کچھ لوگوں کو لیا جائے، اسی طرح قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے اگر اسفندیار ولی خان اور محمود خان اچکزی کو بھی جرگہ میں شریک ہونے کے لیے راضی کیا جائے تو اور بھی زیادہ اچھا ہوگا۔

اس کے علاوہ یہاں مقامی پشتون قبیلوں کے مشران جن میں مروت، بیٹنی، آفریدی، مہمند وغیرہ کے مشران کو بھی شامل کیا جانا چاہیے، یہ لویا جرگہ وزیرستان کے قبائلی مشران جن میں وزیر، داوڑ اور محسود شامل ہیں، سے بات کریں اور ان میں سے چیدہ چیدہ مشران کو اپنے ساتھ جرگے کا حصہ بنائیں۔ پھر میرا یقین ہے کہ دو دن میں معاملہ مثبت طرف نکلے گا اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ نکل سکتا ہے کہ اس طرح کے قومی لیڈرز و مشران اس پورے معاملے کا ایک مثبت حل نکال لیں۔

لیکن یہاں پھر وہی بات کہ جرگہ ممبران کو مکمل اختیار ہو کہ آپ ریاستی عملداری کا خیال رکھتے ہوئے ہر قیمت پر معاملہ حل کرائیں اور اس کے لیے ذہنی طور پر کچھ نقصان کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یاد رہیں یہ معاملہ پی ٹی ایم کا نہیں بلکہ ایک قوم کا ہے بطورِ خاص وزیرستان کا ہے لہذا ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے، ان اقوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ہم آپ کے ساتھ کھیلیں گے نہیں، آپ ہمارے اپنے ہیں، ان کے جو مطالبات ہیں ان میں کوئی ایسا نہیں جو حل نہ ہو سکے۔

اس وقت لوگوں میں ایک عجیب احساس محرومی پایا جاتا ہے اور عام سوچ یہی ہے کہ ریاستی سطح پر ہمیں مارنے کے لیے سب کچھ کیا جارہا ہے لہذا ریاست کو خاص کر فوج کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کچھ باتوں میں کڑوی گولی نگلنی ہوگی۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ لوگ ریاست کو نقصان پہنچادیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ خود کو نقصان پہنچانے کے لئے لوگ ذہنی طور پر تیار دکھائی دیتے ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس لمبی چوڑی فہرستیں ہیں کہ اب اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دیر ہوجائے گی۔

2012 / 13 جب سے لکھنا شروع کیا ہے اپنے ہر تحریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ خدارا ہمارا ہر قدم لوگوں کے خلاف کیوں جارہا ہے اور اس کے وقت آنے پر کیا نقصانات ہوسکتے ہیں لیکن ہماری کون سنے گا؟ مگر اب تو کم از کم حالات بہت بدلے ہیں۔ اگر ملک عزیز ہے تو سب اب اپنی انا اور ضد کو چھوڑیں۔ اپنے دیگر صوبوں کے دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس معاملے کے حل کے بارے میں کوششیں کریں حکومت پر اداروں پر دباؤ ڈالیں کہ مزید خونریزیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اسی بارے میں: وزیرستان کے حالات کو ہاتھ سے مت نکلنے دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).