قصہ تمام ہوا


کمر کی تکلیف کے باعث ان دنوں گاڑی چلانا بہت تکلیف دہ محسوس ہو رہا ہے اور ہفتے میں تین دن سفر میں گزارتا ہوں۔ ذاتی اور پیشہ وارانہ مجبوریوں کی وجہ سے لہٰذا اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی نہیں جاپاتا۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ غیر حاضری میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ صحافت کے شعبے میں تھوڑا مقام فقط قومی اسمبلی کی بدولت نصیب ہوا تھا۔ 1985سے قائم ہوئی ہر اسمبلی کے اجلاس کو باقاعدگی سے رپورٹ کیا۔

اس کے بارے میں پریس گیلری کے کالم لکھے۔ کئی مہربانوں نے اسے نئے طرز کی صحافت قرار دیتے ہوئے حوصلہ بڑھایا۔

اپنے گھر تک محدود ہوتے ہوئے بھی لیکن مجھے سوفیصد یقین تھا کہ پیر کے روز ہوئے اجلاس میں کم از کم پاکستان مسلم لیگ (نون) کے 80سے زیادہ اراکین یکسوہوکر قومی اسمبلی کے سپیکر کومجبور کردیں گے کہ دیگر معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے اس مطالبے پر غور کیا جائے کہ حال ہی میں جوسنسنی خیز وڈیوز چند ٹی وی سکرینوں پرچلی ہیں ان کے ذمہ دار کرداروں کی نشان دہی کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

یہ بات برحق کہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت اس مطالبے کو ماننے سے بآسانی انکارکرسکتی تھی۔ اس کے لئے مگر ضروری تھا کہ بحیثیت پارلیمانی لیڈرخواجہ آصف اجلاس شروع ہوتے اس دن کے ایجنڈے کو معطل کرنے پر زور دیتے۔ معطلی کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ بیان کرتے کہ ایک اہم ترین واقعہ کی تحقیقات کے لئے وہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک پیش کرنا چاہتے ہیں۔ سپیکر اسد قیصر مزاحمت پر ڈٹ جاتے تو معطلی والی خواہش کے بارے میں انہیں رائے شماری کروانے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔

حکومت کو اس ضمن میں اپنے بندے پورے کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی۔ اس فکر میں شاید کوئی اور جواز گھڑتے ہوئے اسمبلی اجلاس کو معطل بھی کروایا جا سکتا تھا۔یہ بات مگر عیاں ہوجاتی کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) سنسنی خیز وڈیو کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کروانے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔میڈیا کے ذریعے لیکن مجھے یہ پیغام ہرگز نہیں ملا ہے۔خواجہ آصف صاحب نے پیر کی سہ پہر اجلاس شروع ہوتے ہی اس ضمن میں اپنا مؤقف ضرور بیان کیا۔

ان کی تقریر طولانی تھی مگر طویل پارلیمانی تجربے کی بدولت انہوں نے اسے Engaging رکھا۔ حکومتی بنچوں کی جانب سے کسے فقروں کو بے ساختہ جملہ بازی سے ناکارہ بھی بنادیا۔ وہ مگر کسی صورت اس مطالبے پر قواعد وضوابط کے بھرپور اطلاق کے ذریعے اصرار کرتے محسوس نہ ہوئے کہ سنسنی خیز وڈیوز کی تحقیقات کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی کا قیام ضروری ہے۔

پیر کے اجلاس سے قبل وزیرستان کی ایک چیک پوسٹ والا واقعہ بھی ہوچکا تھا۔اس کے بارے میں خواجہ آصف نے اپنی پارٹی کا موقف بیان کرنا بھی ضروری سمجھا۔وڈیوز کے معاملے پر لہذا فوکس برقرار نہ رہا اور چیک پوسٹ والے واقعہ نے تحریک انصاف کے بائونسر وزیر مراد سعید کو یہ سہولت فراہم کردی کہ وہ وڈیوز والے قصے کو نظرانداز کرتے ہوئے مذکورہ واقعہ پر حکومتی ردعمل کو شدومد سے بیان کردیں۔

مراد سعید کی طولانی تقریر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوگیا۔ منگل کا اجلاس 28 مئی کے حوالے سے تقاریر کی نذر ہوگیا۔ بدھ اور جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس منعقد نہیں ہوئے۔جمعہ کے دن محض چند لمحوں کے لئے جمع ہوکر اراکین کو نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے حلقوں میں پہنچنے کی عجلت لاحق ہوجاتی ہے۔میں بہت اعتماد کے ساتھ لہذا یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ اس ہفتے پاکستان مسلم لیگ (نون) کو وڈیوز والا معاملہ اٹھانے کی مہلت ہی نہیں ملے گی۔ نظر بظاہر ’’مٹی پائو‘‘ کا مکمل بندوبست۔

یہ لکھنے کے بعد میرے ذہن میں فوراََ سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) سنسنی خیز وڈیوز کے بارے میں ایک پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے مطالبے پر واقعتا سنجیدہ ہے بھی یا نہیں۔ مذکورہ وڈیوز کے برسرعام آنے کے فوری بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) کے صدر نے لندن سے بیان دیا تھا کہ وہ ’’ذاتی زندگی‘‘ سے جڑے قصے کو اچھالنا نہیں چاہتے۔چند ہی گھنٹوں بعد مگر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے سنسنی خیز وڈیوز کے بارے میں تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کردیا۔

ان کے اس مطالبے کی شہباز صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے تائید کردی۔شاہد خاقان عباسی کی جانب سے آئے مطالبے کے دوسرے دن مگر پنجاب اسمبلی کے جواں سال ملک محمد احمد نے ماڈل ٹائون لاہورمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمادیا۔ ملک صاحب فطرتاََ دھیمے مزاج ہیں۔ ان کے والد سے جب وہ سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین ہوا کرتے تھے میری کافی قربت رہی ہے۔ملک محمد احمد سے صرف ایک بار ملا ہوں۔

ماڈل ٹائون لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ ان کے دھیمے مزاج کی نفی کرتا سنائی دیا۔ ان کی پریس کانفرنس ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد مگر مریم اورنگزیب صاحبہ کی طرف سے یہ بیان آگیا کہ ملک صاحب نے مذکورہ پریس کانفرنس میں ’’ذاتی خیالات‘‘ بیان کئے ہیں۔ بحیثیت جماعت پاکستان مسلم لیگ (نون) ان خیالات کی تائید نہیں کرتی۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ملک صاحب کے ’’ذاتی خیالات‘‘ کیا تھے۔ میری دانست میں وہ سنسنی خیز وڈیوز کو نظرانداز کرتے ہوئے اس ’’انٹرویو‘‘ پر فوکس کرنا چاہ رہے تھے جسے جاوید چودھری صاحب صاحب نے اپنے کالم میں دوقسطوں میں لکھا ہے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ کوئی ’’انٹرویو‘‘ نہیں ہوا۔

اس تردید کے باوجود حمزہ شہباز شریف نے منگل کے روز ’’مبینہ انٹرویو‘‘ کی بنیاد پر ہی لاہور ہائی کورٹ کے عزت مآب ججوں کو قائل کیا کہ وہ خود کو ان کی ذات سے جڑے مقدموں سے جدا کریں۔اس واقعہ کے بعدکم از کم میرے لئے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ ملک احمد کے ’’پردے‘‘ میں کون بول رہا تھا۔

شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف برسوں کے پارلیمانی تجربے کے باوجود سنسنی خیز وڈیوز کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے مطالبے کو پُرزور انداز میں اجاگرکرنے میں ناکام رہے۔ ملک احمد نے فقط ’’مبینہ انٹرویو‘‘ پر فوکس کیا اور حمزہ شہباز شریف نے اسی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے لئے وقتی ریلیف بھی حاصل کرلیا۔ قصہ تمام ہوا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).