مفتی صاحب تھوڑا لیٹ ہیں


ہمارے گھر کے بالکل سامنے مرحوم ماسٹر ابراہیم صاحب کا مسکن تھا جس کی بیٹھک میں محلے کے پیر و جواں خوش گپیوں اور بحث مباحثوں کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ یہ کوئی زاہد۔ خشک کا حجرہ نہیں تھا جہاں سالک۔ علم کو بولنے سے پیشتر کئی دفعہ تولنا پڑے۔ مختلف نقطہ۔ نظر رکھنے والے اصحاب کئی نازک مقامات سے، بغیر کفر کا فتویٰ لگائے، بآسانی گزر جایا کرتے تھے۔ والد صاحب کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے انہیں ایک فتویٰ دکھایا تھا جس کی رو سے ہند کے جید علماء نے اسپیکر کے استعمال کی شدید ممانعت کرتے ہوئے اسے شیطانی آلہ قرار دیا تھا۔ بقول کچھ مفتیان۔ کرام و واعظان۔ عظام، اس شیطانی آلہ میں شیطان خود بولتا تھا۔ لیکن اس ساٹھ ستر سالہ پرانے فتویٰ کی خبر جب مجھ تک پہنچی اس وقت تک اسپیکر مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد ہر ڈیڑھ دو اینٹ کی مسجد کی زیب و زینت کا لازمی حصہ قرار پا چکا تھا۔

مشرف کے وقت میں پابندی لگنے سے پہلے جماعت الدعوہ کا نام شاید مرکزالدعوہ والارشاد تھا اور ہر جمعہ نماز کے بعد دو باریش جوان جامع مسجد کے باہر مجلہ الدعوہ نامی ایک ماہنامہ اور ایک ہفت روزہ اخبار لیے کھڑے ہوتے تھے۔ ان نوجوانوں کا اخلاق ایسا ہوتا تھا کہ اکثر نمازی خریدنے کی بجائے ادھر ہی کھڑے کھڑے اخبار اور رسالہ کی اہم سرخیاں مفت پڑھ لیا کرتے تھے۔ کبھی انہوں نے ہم ایسے کنگلے نمازیوں کو یہ کہہ کر نہیں دھتکارا کہ اخبار خرید کر پڑھو۔

ان دونوں اخبار و رسالہ میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی جلد شکست، کشمیر کی عنقریب ہونے والی آزادی کی نوید، مقبوضہ کشمیر میں جہنم واصل ہونے والے بھارتی فوجیوں اور جام۔ شہادت نوش کرنے والے جری مجاہدین کے تذکروں کے علاوہ دو اور چیزیں مشترک ہوا کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ کسی انسان کا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جہاں کہیں احتجاج، لاشوں یا زخمیوں کا دکھانا مقصود ہوتا تھا وہاں چہروں پر ایک گول دھبہ لگا دیا جاتا تھا کیونکہ حدیث میں تصویر بنانے والے کے لیے سخت وعید ہے۔

جمعہ کے خطبوں اور مذہبی جلسوں میں علماء ایسے سوالوں کے علمی جوابات دیا کرتے تھے کہ تصویر والے کرنسی نوٹوں کی جیب میں موجودگی نماز کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں؟ ان دنوں اس حدیث پر اس سختی سے عمل پیرا ہوا جاتا تھا کہ ایک دو دفعہ حافظ سعید صاحب کی پریس کانفرنس سننے کا اتفاق ہوا تو ٹی وی پر ان کی تصویر کی بجائے چوبرجی چوک پر واقع القدسیہ مسجد کی تصویر علامتی طور پر دکھائی جاتی تھی۔ حافظ صاحب کی تصویر عشاق کے آئینہ دل میں ہی کہیں محفوظ ہوتی تھی۔

دوسرا یہ کہ اخبار و رسالہ میں متواتر ایسے واقعات درج ہوا کرتے تھے کہ فلاں شہر کے فلاں مجاہد بھائی نے ٹی وی، ڈش اور انٹینا کو چھت سے پھینک کر، فلاں نے ڈنڈے مار کر اور فلاں نے آگ لگا کر اس شیطانی ڈبہ سے اپنا گھر پاک کیا۔ بطور سند ٹی وی کے سوختہ ڈھانچوں کی تصاویر بھی ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔ برسوں بعد اس شیطانی ڈبہ نے جیو نیوز کے پروگرام ’پچاس منٹ‘ میں جماعت الدعوہ کے ایک شعلہ بیاں مقرر و مصنف جناب امیر حمزہ کا دیدار کروایا۔ کچھ مہینوں یا سال بعد جناب حافظ سعید کی زیارت بھی اسی شیطانی ڈبہ کی وساطت سے ہو ہی گئی، شاید اس وقت تک تصویر اور شیطانی ڈبہ نے کلمہ پڑھ لیا ہو۔

میٹرک میں تھا جب الیاس قادری صاحب کا پہلی دفعہ ذکر خیر سنا۔ ایک کلاس فیلو نے بتایا کہ قادری صاحب کی کرامت یہ ہے کہ ان کی تصویر نہیں بنتی، تصویریں کھینچ، ویڈیو بنا کر جب کیمرے کا رول نکالا جائے تو بالکل سلیٹ کی طرح صاف ہوتا ہے۔ یہ تک بتایا جاتا تھا کہ قادری صاحب کے تو پاسپورٹ پر بھی تصویر نہیں ہے۔ عرصہ ہوا اس کرامت سے اب قادری صاحب دامت برکاتہم دست بردار ہو چکے ہیں اور اپنا ایک ٹی وی چینل کھول کر لاکھوں چاہنے والوں کے لیے براہ۔ راست زیارت کا سامان کرتے ہیں۔ کیمروں کو اب حکم ہے کہ قادری صاحب کی تصاویر اور ویڈیوز واضح اور صاف ہوں۔

کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب جینٹل مین اللہ اللہ میں لکھا ہے کہ سعودی بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کو ٹیلیفون کا استعمال علماء سے جائز قرار دلوانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ بادشاہ نے اخوان کو پاس بٹھایا، فون کی گھنٹی بجی، اخوان نے ریسیور تھاما دوسری طرف سے تلاوت کی آواز آئی تو مانے کہ اگر اس میں سے تلاوت کی آواز آ سکتی ہے تو یہ شیطانی ایجاد نہیں۔

ان گناہگار کانوں سے میں حافظ صاحب اور ان کے معتقدین کی ایسی تقاریر سن چکا ہوں جن میں جمہوریت کا تذکرہ انتہائی حقیر آمیز انداز میں کیا جاتا اور اسے سامراج کا ایسا ہتھکنڈہ قرار دیا جاتا تھا جس کی مدد سے امریکی و یہودی لابی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی و معاشی ڈھانچہ کو کنٹرول کرنا چاہتی تھی۔ لیکن یہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید و باقی راہنماؤں کے بقلم خود الیکشن لڑنے اور ہارنے سے پہلے کی بات ہے۔

یہاں یہ امر قابل۔ ذکر ہو گا کہ عورت کی حکمرانی کو تباہی کی سند سمجھنے والی جماعت اہلحدیث کے قائد جناب ساجد میر، محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ہاتھوں بیعت ہو چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے بے نظیر صاحبہ کی سیادت میں سیاست کی ہوئی ہے اور مریم نواز صاحبہ کی قیادت پر ایمان تقریباً لا چکے ہیں، باوجود اس کے کہ مدارس میں عورت کی حکمرانی پر تبریٰ بھیجنے کی قدیمی روایت بدستور برقرار ہے۔

فہرست طویل، وقت قلیل ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مجتہدین، مفتیان کرام اور واعظان عظام نے ہر نئی ٹیکنالوجی کے سامنے بند باندھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔ چاہے وہ انگریزی تعلیم ہو، موبائل کا استعمال ہو، عورت کی تعلیم ہو، ٹی وی و انٹرنیٹ کی ایجاد ہو، زمین کا سورج کے گرد گھومنا ہو یا ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ریپ کا پتہ چلانا، یہ سب کچھ ایک وقت تک ممنوع سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں علماء نے اپنے ہی فتووں سے رجوع کرتے ہوئے ان سب کو نہ صرف حلال قرار دیا بلکہ ٹی وی، انٹرنیٹ، لاؤڈ اسپیکر اور سوشل میڈیا پر چوبیس گھنٹے دھونی رما کر بیٹھ گئے۔

کہا جاتا ہے کہ گلیلیو نے جب پہلی دفعہ انکشاف کیا کہ سورج زمین کے گرد نہیں، بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پادریوں نے اسے سخت اذیتیں دیں اور معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ پاکستان میں، جہاں پورے سال کی اٹھارہ سو بیس نمازوں کے اوقات سائنسی بنیادوں پر نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے، فواد چوہدری نے چاند کی گردش کا سائنسی کیلنڈر نکالنے کا عزم کیا ظاہر کیا، کئی مفتی حضرات کا بس نہیں چلتا کہ موصوف کو کسی مینار سے گرا کر ہلاک کر دیں۔ فواد چوہدری سے عرض ہے کہ آپ لگے رہیں۔ مفتی صاحب تھوڑا لیٹ ہیں۔ پانچ ایک سال میں سائنسی قمری کیلنڈر بھی شمسی کیلنڈر کی طرح عام ہو جائے گا اور کسی مولوی نے اسے بھی گھیسٹ کر دائرہ اسلام میں لمبا ڈال لینا ہے۔

واعظان۔ شہر ہیں سب آدمیت کے مزار

لا صراحی ان مزاروں پر گل افشانی کریں

زاہدو ہٹ جاؤ رستے سے کہ ہم بادہ گسار

کوئی سامان نجات نوع انسانی کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).