علم کی دُنیا کے دو اسیر


آج سے کوئی بیس برس قبل ایک دوست میرے پاس ایک نوجوان کو لائے اور اس کا تعارف کراتے ہوئے بولے کہ نوجوان حقیقی متلاشی ہے، ہر وقت علم و دانش کی تلاش میں رہتا ہے، تمہارے کچھ خیالات اور ذوقِ مطالعہ کی خبر اس تک پہنچی ہے تو تم سے ملنے آیا ہے۔ نوجوان کی عمر کوئی سولہ برس تھی اور وہ اس وقت میٹرک کا طالب علم تھا۔ اس نے کچھ سوالات کیے تو پیشگی عرض کی کہ میں تو ابھی خود طالب علم ہوں، ان سوالات کا جو بھی جواب دوں گا، وہ جواب ہوگا جو میں اس وقت تک، اس لمحے تک درست سمجھتا ہوں۔ میری تلاش کا سفر بھی ابھی جاری ہے، میرے دیے ہوئے کسی جواب پر رُک نہ جائیے گا اور اگر رُک گئے تو کل کلاں مجھ سے یہ تقاضا مت کیجئے گا کہ میں کیوں آگے بڑھ گیا ہوں اور اپنے ہی پرانے جواب کا قائل کیوں نہیں رہا۔ میں نہ آپ کے سوال کا قیدی ہوں اور نہ ہی اپنے جواب کا۔

وہ دن ہے اور آج کا دن۔ مجھے کوئی دن یاد نہیں جب میں نے خود سے کوئی سوال کرنے والے کو یہ تنبیہ نہ کی ہو کیونکہ مجھے اور کچھ علم ہو نہ ہو، میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ علم و دانش کی متحرک اور ہردم رواں دنیا میں دو قسم کے لوگوں کی نہیں ہے : ایک وہ جو اپنے سوالات کے عشق میں گرفتار ہوکر رُک گئے اور دوسرے وہ جو اپنے جوابات کے عشق میں پتھرا گئے۔

پہلے ثانی الذکر لوگوں کا تذکرہ کریں تو اپنے جوابات کی وجہ سے ٹھہراؤ اور جمود کا شکار وہ لوگ ہیں جو کسی کے سوالات کا وہ جواب دے بیٹھے جو سوال کرنے والا سننا چاہتا تھا اور اب وہ ان سے ہمیشہ اُسی جواب کا تقاضا کررہا ہے۔ اب اگر جواب دینے والے کو اس بات کا ادراک بھی ہوجائے کہ علم جامد نہیں ہے، ایک دور کا جواب دوسرے دور کا سوال بن جاتا ہے اس لئے اس کا جواب بھی پُرانا ہوچکا ہے اور یہ سوچ کر وہ کسی نئے نتیجے پر بھی پہنچ جائے تو اس کے قارئین، اس کے سامع اور یوں کہیں مرید اسے کوئی دُوسرا جواب نہیں دینے دیں گے، کیونکہ وہ اُسی جواب پر ایک قسم کی انجمن یا چھوٹی سی اسٹیبلشمنٹ بناکر بیٹھ گئے ہیں اور یہ انجمن جواب دینے والے کو خاموشی سے بلیک میل کررہی ہے کہ اگر کوئی اور، کوئی نیا جواب دیا تو ہمیں کھو دو گے۔ ہمیں اپنا دشمن بنالو گے۔ تم نے ہمیں اس جواب کا اسیر کیا ہے تو سز ا کے طو ر پر تم ہمارے ٹھہراؤ کے اسیر ہوجاؤ۔

مجھے یوں لگتا ہے کہ اپنے جواب کے اسیر لوگ دراصل دوسروں کو کوئی راستہ دکھانے کے نہیں بلکہ انہیں اپنا اسیر کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اسیر کرنے کی خواہش کا نتیجہ اکثر خود اسیری کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ ایسے لوگ بظاہر اپنے قارئین، سامعین اور مریدین کے آقا دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل میں ان کے غلام ہوتے ہیں۔ بظاہر رہنما دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل میں پیروکار ہوتے ہیں۔ غور کریں تو آزاد کرنے کی بجائے اسیر کرنے کی نیت سے جواب دینے والوں کو سب سے بڑی سزا تو یہ ملتی ہے وہ طالب علمی کے سوزوگداز سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اول الذکر یعنی اپنے سوالات کی وجہ سے ٹھہراؤ کا شکار وہ لوگ ہیں جو سوالات اس لئے نہیں پوچھتے کہ انہیں واقعی کسی جواب کی تلاش ہوتی ہے۔ اس لئے نہیں پوچھتے کہ ان کی جان پر بنی ہوتی ہے کہ اگر جواب نہ ملا تو کیا ہوگا، کہاں جائیں گے۔ اس طرح نہیں پوچھتے جیسے پیاس سے مرنے والا کسی چشمے کسی جھرنے کا پتہ پوچھتا ہے۔ اس طرح نہیں پوچھتے جیسے درد سے ترپٹنے والا طبیب کا پوچھتا ہے بلکہ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے کوئی بس پوچھنے کے لئے پوچھتا ہے۔

اس لئے پوچھتے ہیں تاکہ خود کو تسلی دے سکیں کہ دیکھیں ہم عام لوگ نہیں ہم تو سچ کے متلاشی ہیں۔ ہم راستہ تلاش کررہے ہیں۔ راستہ نہیں مل رہا تو کیا ہوا، جب ملے گا چل بھی لیں گے، فی الحال آپ یہ دیکھیں کہ کتنے خلوص سے اور استقلال سے پوچھ رہے ہیں۔ بھلا ہم لاکھوں کروڑوں کی طرح کوئی ایرے غیرے ہوتے تو سوال پوچھتے؟

سوالات کی وجہ سے ٹھہرے ہوئے لوگوں سے طالب علم کی پہلی ملاقات اُسی روز ہوئی جب وہ نوجوان ملنے آئے اور سوالات کی اسیری کے مرض کی تشخیص ابھی چند ماہ پہلے ہوئی جب اُسی نوجوان سے (جو اب نوجوان نہیں رہا) اسلام آباد میں اس کے گھر پر ملاقات ہوئی اور وہ اُس شب بھی اپنے جوابات کے عشق میں مبتلا ایک دانشور سے وہی سوالات پوچھ رہا تھا جو اُس نے اس طالب علم سے بیس برس پہلے پوچھے تھے۔ دانشور اُسے ملتے جلتے جواب دے رہے تھے جو اس طالب علم نے بیس سال پہلے دیے تھے لیکن جوان کے چہرے پر آج بھی مصنوعی حیرت تھی اور وہ سمجھداری ظاہر کرنے کے لئے عین اسی طرح سر ہلا رہا تھا جیسے بیس برس قبل ہلایا کرتا تھا۔ اگر اس بار کچھ مختلف تھا تو یہ کہ جواب دینے والا بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ تمہارے ان سوالات کا اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں جو میں دے رہا ہوں۔

یہ طالب علم کچھ دیر اس محفل میں بیٹھا حلم اور عاجزی سے تہی علم کے کرتب دیکھتا، خاموشی سے سنتا اور یہ سوچتا رہا کہ علم کی دنیا کے ان دو اسیروں میں سے کون مہلک اسیری کا شکار ہے۔ جواب ملا دونوں مگر جواب کی اسیری زیادہ خطرناک ہے۔ اٹھ کر واپسی کی راہ لی تو ذہن میں یہ سوال اٹھا:
”انسان آقا اور غلام کی بلیک اینڈ وائٹ انتہاؤں کے بیچ رنگا رنگ رشتوں کی دھنک کب دریافت کرپائے گا؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).