نائی سب سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں



کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں ایک جنوبی ساحلی شہر میں ایک نہایت غریب جولاہا رہا کرتا تھا۔ ایک دن وہ کپڑا بن رہا تھا کہ اس کی کپڑا بننے کی کھڈی ٹوٹ گئی۔ اس نے اپنی کلہاڑی اٹھائی اور کسی مناسب درخت کی تلاش میں جنگل پہنچ گیا۔ وہاں اسے ایک نہایت ہی قدیم اور بڑا درخت نظر آیا۔ اب بندہ سوچے، کہ اس کی ضرورت لکڑی کے چند ٹکڑوں کی تھی اور معمولی سی محنت سے وہ پانچ منٹ میں چھوٹا سا درخت کاٹ کر اپنا گزارا کر سکتا تھا، لیکن وہ لالچ پر تلا ہوا تھا۔ بھلا سوچتا کہ وہ اکیلا آدمی، کتنی دیر میں درخت کاٹے گا اور کیسے گھر لے کر جائے گا۔ بہرحال، اس عقل کے پورے نے کلہاڑی نکالی اور درخت پر زور سے ضرب لگائی۔ ساتھ ہی اسے ایک چیخ سنائی دی۔ اس نے گھبرا کر اپنے پاؤں چیک کیے کہ کہیں وہ غلطی سے اپنے پاؤں پر تو کلہاڑی نہیں مار بیٹھا ہے۔ لیکن پاؤں سلامت تھے۔

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ درخت سے ایک جن نکلا اور کہنے لگا کہ میاں کلہاڑے، تم تو سیانے ہو، کیوں مجھے کاٹ رہے ہو؟ جولاہا بولا مجھے لکڑی کی ضرورت ہے تاکہ میں اس سے اپنی کھڈی بنا لوں اور باقی لکڑی سے کچھ بیچوں گا اور کچھ جلاؤں گا۔ زندگی کچھ آسان ہو جائے گی۔

جن بولا تمہاری عقل کا تو مجھے پتہ ہے، اسی لیے میں کلہاڑے سے بات کر رہا تھا۔ بہرحال، میں تمہاری ایک خواہش پوری کر سکتا ہوں۔ جو چاہتے ہو، مانگو، مگر درخت کو مت چھیڑو۔ یہ میرا جنگل ہٹ ہے اور گرمیوں کی چھٹیاں میں یہیں گزارتا ہوں۔ یہاں ساحل سے بہترین ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔ کمال کی جگہ ہے۔

جولاہا کنفیوز ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا مانگوں۔ جن نے اسے کہا چلو کوئی بات نہیں ہے، اسی لیے میں کلہاڑے سے بات کر رہا تھا۔ تم ایسا کرو کہ سکون سے گھر جاؤ اور بیوی بچوں سے اور دوستوں سے مشورہ کر کے کل ٹھیک گیارہ بجے شارپ یہاں پہنچ جانا اور بتا دینا کہ کیا چاہتے ہو۔

جولاہا واپس گھر کی طرف چلا تو گاؤں میں داخل ہوتے ہی اسے اپنا ایک دوست نظر آیا جو کہ نائی تھا۔ جولاہے نے نائی سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور اسے بتایا کہ اسے ایک جن نے ایک خواہش دی ہے۔ کون سی خواہش بہتر رہے گی؟

نائی بولا کہ جن سے بادشاہت مانگ لو۔ تم بادشاہ بنو گے اور میں تمہارا وزیر۔ ساری زندگی دونوں موج کریں گے۔ اور بدلے میں میں تمہیں ساری زندگی میں فری ہیئر کٹ اور شیو بھی دوں گا۔

جولاہا بولا ٹھیک ہے، لیکن میں اپنی بیوی سے بھی مشورہ کر لیتا ہوں۔

نائی نے کہا کہ سیانوں کا قول ہے کہ ایک عقل مند بندہ اپنی بیوی کو گہنے کپڑے اور ہیرے جواہرات دیتا ہے۔ لیکن اپنے معاملات میں اس سے مشورہ نہیں کرتا کیونکہ وہ عقل کی پوری ہوتی ہے۔ اور بزرگوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ جو گھر بھی عورتیں یا بچے چلاتے ہیں وہ تباہ ہوتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ میری بہترین آفر کے باوجود تم میرا مشورہ ماننے سے انکاری ہو۔

جولاہے نے اس کی بات کو نظرانداز کیا اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کو جن اور نائی کے مشورے کے بارے میں بتایا۔

جولاہے کی بیوی نہایت غصے میں آ گئی۔ کہنے لگی کہ خدایا، کسی نائی کو کتنی عقل ہو سکتی ہے؟ اس کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی عقل والا کسی نائی، فقیر، بچے یا نوکر کی بات نہیں سنتا ہے۔ بادشاہ بنوا کر تمہیں مروائے گا۔ راجہ بنتے ہی تمہیں طرح طرح کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگ بغاوت کریں گے۔ کسی وقت بھی کوئی دوست رشتے دار تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا اور خود بادشاہ بن جائے گا۔ اسی وجہ سے تو رام جی نے بادشاہت چھوڑ کر جنگل میں رہنا پسند کیا تھا۔ اسی لیے کوئی بھی عقل والا بندہ ایسا راج پاٹ نہیں چاہے گا جس کی وجہ سے بھائیوں، دوستوں، اور عزیزوں کا خون بہانا پڑے۔ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ شیو کرتے کرتے وہی تمہارا گلا بھی فری میں کاٹ ڈالے گا۔

جولاہا کہنے لگا کہ نیک بخت، کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ مجھے بھی اس کے استرے سے خوف آتا ہے۔ بتاؤ پھر جن سے کیا مانگا جائے؟

بیوی کہنے لگی کہ ہر روز تم دونوں ہاتھ چلا چلا کر بمشکل کپڑے کا ایک ٹکڑا بنتے ہو۔ اس سے ہمارا کھانا پینا چل جاتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ جن سے ایک اور سر اور دو اور ہاتھ مانگ لو۔ اس سے تم دن کے دو کپڑے بن سکو گے۔ ایک کپڑے کو بیچ کر ہمارا کھانا پینا پورا ہو جائے گا اور دوسرے کپڑے کو بیچ کر خوشی غمی کے لیے کچھ پیسے اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس طرح ہماری زندگی بہت آسانی سے کٹ جائے گی۔

بات جولائے کی سمجھ میں آ گئی۔ فوراً درخت کے پاس گیا اور جن سے دو مزید ہاتھ اور ایک سر مانگ لیا۔ جن نے اس کی خواہش پوری کر دی۔ جولاہا ہنسی خوشی واپس گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں کے لوگوں نے جنگل سے ایک چار ہاتھوں اور دو سروں والے راکشس کو باہر آتے دیکھا تو اس پر پتھراؤ شروع کر دیا اور جولاہا منٹوں میں مر گیا۔

نتیجہ: نائی سیانے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کوئی مختلف نتیجہ نکالنا چاہیں تو آپ آزاد ہیں۔

(یہ قدیم ہندی کتاب پنچ تنتر کی حکایت ہے جسے سنسکرت اور دیوناگری سے نابلد قارئین کی سہولت کے لیے جدید زبان و بیان میں دوبارہ لکھا گیا ہے ) ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments