اسٹیبلشمنٹ نے اختلافی آوازوں کے بارے میں درشت رویہ کیوں اپنایا؟


پاکستان میں اختلاف رائے خواہ علمی اور خالصتا تحقیقی بنیادوں ہی کیوں نہ ہو، اگر آپ یہ جسارت کریں تو فوری الزام یہ لگے گا آپ بے ایمان اور بدعوان ہیں، یا پھر ’لفافہ صحافی‘ ، ’بکاؤ مال‘ کا تمغہ تھما دیا جائے گا۔ ورنہ ’ملک دشمن‘ ، ’غدار‘ قرار دیا جانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ پاکستان میں اب ریاستی موقف یا بیانیہ سے اختلاف یا اس پر سوال سہل نہیں رہا۔ سادہ الفاظ میں ’اختلاف رائے‘ کا ”ثمر“ آپ دیکھ تو سکتے ہیں، چکھ نہیں سکتے۔

ضیا دور کے بعد سیاستدانوں کو ایسے سنگین ترین الزامات سے استثنیٰ میسر رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر مرکزی سیاسی دھارے میں شامل سیاستدان اس دور میں عموما ریاست ہی کے بیانیے پر کاربند تھے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بڑے دائرے میں ہونے والے معاملات کے تناظر میں سیاسی رہنما ریاستی اداروں کے مفادت کی ہی تکمیل میں جُتے تھے۔

مرکزی سیاسی دھارے کے سیاستدانوں میں واحد بے نظیر بھٹو ایسی شخصیت رہیں جو ریاستی موقف یا بیانیہ کو مسلسل چیلنج کرتی رہیں خاص طورپر خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے موضوعات پر۔

مرکزی سیاسی دھارے کے سیاستدانوں سے برتاؤ اور اختلاف رائے کے معاملے میں ریاستی اداروں کی جانب سے ان کے رویے میں واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہو۔ قانون اور قاعدہ اب یہ ہے کہ ”اختلاف رائے شجر ممنوعہ بن چکا ہے، چکھنہ تو دور کی بات، اب اس کے قریب جانے کی بھی چنداں اجازت نہیں۔ “ اس خواہش اور جستجو کا ’ثمر‘ آبلہ پائی اور زندگی کی لطافتوں اور آسائشوں سے محرومی کی صورت نکل سکتا ہے۔ زندگی کی وہ سہولتیں جوآپ کو اشرافیہ کا حصہ بناتی ہیں، بتدریج کانٹوں کے بستر میں تبدیل ہوجائیں گی۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری 2008 سے 2018 تک حکمران رہے، انہیں عیش وآرام میسر رہا، ان کے زمانے میں اختلاف رائے کی کچھ کچھ اجازت تھی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کو بھی کسی حد تک برداشت کرہی لیا جاتا تھا۔

ضیا کے استبدادی دور میں بھی ریاستی بیانیہ سے روایتی اختلاف رکھنے والے پشتون قوم پرست رہنماؤں کے افغان اور بھارتی رہنماؤ ں سے میل میلاپ کو عرصہ دراز تک برداشت کیا گیا۔

اب جو تبدیلی آئی ہے اس کے تحت ریاستی ادارے ایک خاص رنگ کے سیاسی لیڈروں کی مالی بداعمالیوں کو ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ان کے سیاسی اختلاف کو۔ پشتون قوم پرستوں کی نئی پود کے افغان حکمرانوں کے ساتھ ربط وتعلق پر بھنویں تن جاتی ہیں اور اس میل جول کا سیدھا سیدھا مطلب ریاست مخالفت کے الزام پر منتج ہوتا ہے۔ واضح کردوں کہ میں پشتون قوم پرستوں کو مرکزی سیاسی دھارے کے سیاستدان کے طورپر دیکھتا ہوں کیونکہ وہ آبادی کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی مسلح افواج اور ریاستی سرکاری افسران یعنی بیوروکریسی میں بھی قابل لحاظ حد تک نمائندگی ہے۔

ریاستی اداروں سے مشکوک تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا اکاؤ نٹس اور مقتدرہ کے حامی میڈیا ہاؤسز نواز شریف، زرداری اور پشتون تحفظ تحریک کو غدار ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ کئی مواقع پر ایسا بھی دیکھا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی ایم کی اختلاف رائے پر مبنی تقاریب کی میڈیا ہاؤسز نے کوریج نہیں کی۔ اس میں مقتدرہ کے کردار کاجائزہ لے کر ملکی اور بین الاقوامی لکھاریوں نے اس کی وجوہات کو قلمبند کیا ہے۔ لہذا میں اس موضوع کے کیا اور کیسے ہونے کی تفصیل میں نہیں جاوں گا۔ میں صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ موجودہ صورتحال کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مقتدرہ مرکزی سیاسی دھارے کے سیاستدانوں اور پشتون قوم پرستوں کے خلاف اچانک کیوں اتنی سخت گیر ہوگئی ہے؟ مقتدرہ اختلاف رائے کو مزید برداشت کرنے کے لئے کیوں آمادہ وتیار نہیں؟ کسی سیاسی گروہ کے ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں سے رابطہ رکھنے کو مقتدرہ مزید برداشت کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ مثال کے طورپر مقتدرہ نے وزیراعظم نواز شریف کی لاہور میں نجی رہائش گاہ پر بھارتی وزیراعظم مودی کی آمد و استقبال پر سخت ردعمل دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ مقتدرہ خارجہ پالیسی پر کسی بھی قسم کے اختلاف کی اجازت دینے پر تیار نہیں جسے وہ چلا رہے ہیں، یہی معاملہ داخلی اور خارجہ سکیورٹی کے معماملات کا بھی ہے۔ اس نکتہ کی مزید وضاحت کے لئے میری دانست میں ڈان لیکس کو پھر سے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس سخت رویہ کی وجہ کیا ہے؟ بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ اختلاف رائے کے پر کاٹنے کی وجہ مقتدرہ کا نیا پیدا ہونے والا وہ اعتماد ہے جو انہیں داخلی اور علاقائی صورتحال کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کی بنا پرحاصل ہوا ہے۔ کئی سیاسی تبصرہ نگار اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ یہ دونوں نکات درحقیقت واضح کرتے ہیں کہ داخلی اختلاف رائے سے نمٹنے میں مقتدرہ زیادہ پراعتماد کیوں ہے۔

الف: داخلی محرکات: مقتدرہ درست یا غلط طورپر یقین رکھتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے شمال مغربی حصے میں دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ اس سے انہوں نے بزعم خود ہی یہ درجہ اپنا لیا ہے کہ وہ ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر آگئے ہیں۔ عسکریت پسندی کے خلاف فتح نے ان کے اپنے بارے میں تشخص کو راسخ کیا ہے کہ دراصل وہی اس ملک کو بچانے والے ہیں۔ سویلین سیاستدانوں کے بارے میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ نکمے ہیں اور کسی کام کے نہیں۔ اس انداز فکر کا اظہار باربار بیان کی جانے والی تاکید سے ہوتا ہے کہ ملک کو بچانے کے لئے فوج نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے مقتدرہ کی پراپگنڈہ مشینری میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ عام تاثر یہ بنا ہے کہ عسکریت پسندی کے خلاف میں سویلین سیاستدان اپنا دامن بچا کر ایک طرف دُبکے رہے ہیں۔

فوجی ماہرین کی بڑی تعداد نشاندہی کرتی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ وہ آخری آرمی چیف ہیں جنہوں نے ملک کے شمال مغربی حصے میں ملڑی کمانڈر کی حیثیت سے براہ راست فوجی تصادم نہیں دیکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلاآرمی چیف ایسا فرد ہوگا جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ساتھی سپاہیوں کو میدان جنگ میں مارتے اور خود مرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ممکنہ طورپر اس کا مطلب یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے میں مزید کمی آئے گی۔

ب: خارجی پہلو: گزشتہ پانچ سال کے دوران متعدد وجوہات اور ایسی پیش رفت ہوئی ہے جس نے پاکستانی مقتدرہ کے اثر و نفوذ میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکہ کا پاکستانی قیادت سے رابطہ کرکے یہ التجا کرنا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ طالبان کو میز پر بٹھانے میں اپنا کردار اور اثرورسوخ استعمال کرے۔ علاوہ ازیں چین، روس اور ایران جیسے علاقائی فریقین جن کا افغانستان میں اہم مفاد وابستہ ہے، پاکستانی مقتدرہ سے براہ راست بات کررہے ہیں کہ وہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے قدم روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ روس اور ایران اسلحہ اور مہارت بھی طالبان کو مہیا کررہے ہیں جس کے بارے میں تصور ہے کہ افغانستان میں داعش کے خلاف جنگ کے لئے وہ پاکستانی مقتدرہ کا گھوڑا ہے۔

گمان یہی ہے کہ افغانستان کے کسی حتمی حل میں پاکستانی مقتدرہ کی رائے شامل ہوگی۔ علاقائی کھلاڑی اور بھی زیادہ تعداد میں اس کا دروازہ کھٹکھٹانے چلے آ رہے ہیں۔ یہ اس کے بالکل برعکس صورتحال ہے جس کا دعوی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کرنے کی صورت میں کیاتھا۔ یقینا اس وقت پاکستانی سویلین حکومت اس خطرے کے پیش نظر خود کو بظاہر بے بس محسوس کررہی تھی۔

فوجی ماہرین کے مطابق مذکورہ بالا حقیقت نے مقتدرہ کا اپنی نظروں میں استحقاق اور بھی بڑھا دیا ہے۔ ایسی صورت میں مقتدرہ سیاسی اختلاف کو دبانے میں مصروف عمل ہے خاص طورپر سیاسی قیادت کے بارے میں جب یہ تصور کیاجائے کہ وہ بدعنوان ہی نہیں، نااہل بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).