پولیو کے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے پر دس سکول سیل


صوبائی حکومت کی طرف سے ان تعلیمی اداروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہاں پولیو ویکسین سے متعلق بچوں کی ذہن سازی کی جاتی تھی اور بچوں کو قطروں سے انکار کرنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔

صوبائی حکومت کی طرف سے ان تعلیمی اداروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہاں پولیو ویکسین سے متعلق بچوں کی ذہن سازی کی جاتی تھی اور بچوں کو قطروں سے انکار کرنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلی مرتبہ حکومت کی طرف سے پولیو ویکسین سے متعلق منفی افواہیں پھیلانے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے کے جرم میں دس نجی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی گئی ہے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ کارروائی چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا محمد سلیم خان کے حکم پر کی گئی ہے۔

پشاور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مشتاق حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں چند دن پہلے ہونے والے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں ماشوخیل میں طبی مرکز پر ہونے والے حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے اور سکولوں میں پولیو قطروں کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں پولیو ورکروں پر حملوں کے بعد پولیو مہم معطل

سمارٹ فون سے پولیو کے خلاف جنگ

پنجاب میں رواں برس کا پہلا پولیو کیس: پولیو ختم کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام آباد: پولیو وائرس کی تشخیص کے بعد پولیو مہم شروع

انھوں نے کہا کہ پشاور شہر میں دس ایسے نجی تعلیمی اداروں کی نشاندہی کی گئی جہاں بچوں میں پولیو قطروں کے خلاف منفی افواہیں پھیلائی گئی ہیں اور بعد میں مسجدوں سے اعلانات کے ذریعے سے صوبہ بھر میں شدید خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ تین دنوں میں ان دس نجی سکولوں کو سیل کرکے ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی گئی ہے۔

پشاور میں جن تعلیمی اداروں کو سیل کیا گیا ہے ان میں دارالقلم، اقرا روضتہ التفال، اقرا سکول حسن گھڑی، ہال مارکس سکول، پشاور کیمبرج سکول، مسلم سٹینڈرڈ سکول، اکسفورڈ پبلک سکول، پرائم گرائمر سکول ، اقرا سکول اور کرسٹن پبلک سکول شامل ہیں۔

صوبائی حکومت کی طرف سے ان تعلیمی اداروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہاں پولیو ویکسین سے متعلق بچوں کی ذہن سازی کی جاتی تھی اور بچوں کو قطروں سے انکار کرنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مشتاق حسین نے مزید کہا کہ ان سکولوں کی انتظامیہ ابتدا ہی سے طلبہ کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتی رہی ہے اور اس سلسلے میں ان سے کئی مرتبہ جرگے بھی ہوئے لیکن وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔

22 اپریل کو پشاور کے علاقے ماشوخیل میں پولیو مہم کے دوران قطروں سے بچوں کی موت واقعہ ہو جانے کی بے بنیاد افوا پھیلنے سے مقامی لوگ مشتعل ہوگئے اور ایک مقامی طبی مرکز پر دھاوا بول کر اس کی عمارت کو آگ لگائی گئی۔

22 اپریل کو پشاور کے علاقے ماشوخیل میں پولیو مہم کے دوران قطروں سے بچوں کی موت واقعہ ہو جانے کی بے بنیاد افوا پھیلنے سے مقامی لوگ مشتعل ہوگئے اور ایک مقامی طبی مرکز پر دھاوا بول کر اس کی عمارت کو آگ لگائی گئی۔

مشتاق حسین کے مطابق ماشوخیل میں بنیادی صحت کے مرکز پر ہونے والے حملے کے بعد بھی بعض نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے طلبہ کو قطرے پلانے سے انکار کیا گیا اور اس کے خلاف مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ تعلیمی اداروں کی طرف سے سکولوں کے باہر دیواروں پر وال چاکنگ بھی کی گئی جس میں پولیو ویکسین سے انکار کا واضح پیغام دیا گیا۔

ان کے بقول نجی تعلیمی ادارے حکومتی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہے تھے لہٰذا موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو سزا دینا ضروری سمجھا گیا۔

سرکاری ذرائع کا کہنا کہ جن تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی ہے ان کو اب عدالت ہی بحال کرسکتی ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کی شرائط مان کر ان کی رجسٹریشن مشروط طور پر دوبارہ بحال کی جائے۔

ماشو خیل میں کیوں حملہ ہوا؟

22 اپریل کو پشاور کے علاقے ماشوخیل میں پولیو مہم کے دوران قطروں سے بچوں کی موت واقعہ ہو جانے کی بے بنیاد افوا پھیلنے سے مقامی لوگ مشتعل ہوگئے اور ایک مقامی طبی مرکز پر دھاوا بول کر اس کی عمارت کو آگ لگائی گئی۔

بعد میں کئی دیہات کے افراد نے جمع ہوکر بچوں کو قطرے پلانے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اس دوران سوشل میڈیا پر اور مسجدوں سے اعلانات کرکے یہ افوا پھیلائی گئی کہ بچوں کو پلانے والی ویکسین زائد المعیاد ہے اور جس کی وجہ سے کچھ بچوں کی ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام خان نے ان دنوں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو دنوں میں پشاور کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں پچاس ہزار سے زائد بچوں کو ہسپتالوں میں معائینہ کے لیے لایا گیا۔ تاہم زیادہ تر بچوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام خان نے ان دنوں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو دنوں میں پشاور کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں پچاس ہزار سے زائد بچوں کو ہسپتالوں میں معائینہ کے لیے لایا گیا۔ تاہم زیادہ تر بچوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔

تاہم اس افوا کے پھیلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی پورے صوبے میں ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی اور ہر جگہ یہ خبریں گردش کرنے لگی کہ بچوں کو زائد المیعاد قطرے پلانے کی وجہ سے ان کی جان خطرے میں ہے۔ اس دوران بہت سے والدین بچوں کو لے کر ہسپتالوں کی طرف دوڑ پڑے اور پشاور میں تمام بڑے بڑے ہسپتالوں کی طرف جانے والے راستے مسلسل رش کی وجہ سے اچانک بند ہوگئے۔

اس افوا کے اثرات کئی روز تک ذائل نہیں ہوسکے اور صوبہ بھر میں مسلسل خوف کی کفیت برقرار رہی۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام خان نے ان دنوں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو دنوں میں پشاور کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں پچاس ہزار سے زائد بچوں کو ہسپتالوں میں معائینہ کے لیے لایا گیا۔ تاہم زیادہ تر بچوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونحوا میں پولیو قطروں سے انکار کرنے کے جرم میں والدین کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں کئی افراد کو گرفتار کرکے ان کو چارج بھی کیا گیا ہے۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پولیو سے متعلق منفی افوا پھیلانے پر کسی تعلیمی ادارے کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp