کرکٹ ورلڈ کپ 2019: سرفراز احمد اگر عمران خان بن گئے تو۔۔۔


سرفراز احمد

سرفراز احمد کی ذاتی خاصیت یہ ہے کہ ایسے شدید دباؤ کے بعد وہ بہتر فارم سے جواب دیا کرتے ہیں

کچھ لوگ جرات، مہارت اور خوش قسمتی کا ایسا امتزاج ہوتے ہیں کہ جو کہیں، جسے کہیں، جیسے کہیں وہ ہو جاتا ہے۔

2011 کا ورلڈ کپ جاری تھا۔ عمران خان ان دنوں ڈان نیوز کے لیے تبصرے لکھ رہے تھے اور تبصرے بھی ایسے جامع اور پراثر کہ حسرت موہانی کا شعر یاد آ جاتا

شیرینیٔ نسیم ہے، سوز و گدازِ میر

حسرت ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

انھی میں سے ایک تبصرے میں خان صاحب نے لکھا کہ انڈین ٹیم کو ایک آف سپنر کی شدید ضرورت ہے۔ یہی نہیں خان صاحب نے روی چندرن ایشون کا نام بھی تجویز کیا۔

ورلڈ کپ کرکٹ 2019 پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ

دوسری جانب شاہد آفریدی کی ٹیم کو مشورہ دیا کہ انھیں چاہیے کہ عبدالرزاق کو ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلائیں۔ دلیل یہ تھی کہ عبدالرزاق کو بطور آل راؤنڈر کھلانے میں پاکستان ایک بولر کی جگہ ضائع کر رہا تھا۔

مہندر سنگھ دھونی تو کسی حد تک خان صاحب کی دلیل سے قائل ہو گئے یا شاید کسی اور ہی کے کہنے پر سہی، مگر ایشون کو ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف کھلایا اور دونوں میچ جیت بھی گئے۔

اس کے برعکس آفریدی نے عبدالرزاق کو ون ڈاؤن بھیجنے والی تجویز کو کچھ زیادہ درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور بالآخر سیمی فائنل میں انڈیا کے خلاف پاکستان کا ٹاپ آرڈر ہی ناکام ہوا اور موہالی سے بمبئی جانے کی بجائے آفریدی کی ٹیم لاہور واپس آ گئی۔

اسے کرکٹ کی بدقسمتی کہیے یا سیاست کی خوش قسمتی کہ خان صاحب اب کرکٹ کے بارے بالکل بات نہیں کرتے۔ کہیں نہ کہیں یہ بھی وجہ رہی کہ مخالفین انھیں آج تک محض ایک کرکٹر ہونے کا طعنہ دیتے ہیں جو کبھی اچھا سیاستدان نہیں بن سکتا۔

لیکن اس کے باوجود جہاں کہیں خان صاحب کرکٹ پہ کچھ بات کرتے ہیں تو ہر کوئی متوجہ ہو جاتا ہے۔ ورلڈ کپ 2015 کے کوارٹر فائنل سے پہلے ان کا ایک انٹرویو نشر ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ یونس خان اور یاسر شاہ کو لازمی کھلائیں اور ہر میچ کھلائیں۔

ورلڈ کپ 2019 کے بارے میں بی بی سی اردو کی کوریج

پاکستانی ٹیم کٹھن امتحان کے لیے کتنی تیار؟

انضمام الحق: ’کھیلنا آسان ہے، ٹیم منتخب کرنا زیادہ مشکل کام ہے‘

بکنگھم پیلس کے باہر ’اوپننگ پارٹی‘ اور سرفراز کی شلوار قمیض

محمد حفیظ: سینیئر یا جونیئر، ذمہ داری سب کی برابر

دل پاکستان کے ساتھ لیکن دماغ ویسٹ انڈیز کے لیے

حسنِ اتفاق دیکھیے کہ یہاں بھی جو میچ ہار کر پاکستان باہر ہوا، اس میں یہ دونوں نہیں تھے۔ عین ممکن ہے کہ ان دونوں کی موجودگی سے بھی کوئی فرق نہ پڑتا مگر یہ تو ماننا پڑے گا کہ کرکٹ میں جس نے خان صاحب کا مشورہ ٹھکرایا، وہ گھر کو ہی واپس آیا۔

اب خان صاحب ایسے عہدے پہ براجمان اور مصروفیات کے ایسے حصار میں ہیں کہ اگر پاکستان فائنل میں بھی پہنچ گیا تو کوئی ان کا تجزیہ نہیں سن پائے گا کہ کس کو ون ڈاؤن بھیجنا چاہئے اور کس کو لازمی کھلانا چاہیے۔

لیکن بھلا یہ ہوا ہے کہ سرفراز احمد انگلینڈ جانے سے پہلے ہی کچھ بالمشافہ مشورے لے گئے ہیں۔ کسی حد تک سرفراز نے پریس کو سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خان صاحب اپنی ٹیم سے کس طرح کی کرکٹ چاہتے ہیں۔

مگر انگلینڈ کے خلاف سیریز کی سکور لائن ظاہر کرتی ہے کہ یا تو خان صاحب کے مشورے سرفراز کی سمجھ میں نہیں آئے یا پھر سمجھ آنے کے باوجود عملی طور پہ اثر نہیں دکھا پائے، جو کہ قرینِ قیاس نہیں۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیم کا کوئی جوڑ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں سوال یہ ہےکہ اس چار صفر کی خفت کا مداوا بھی ہو پائے گا یا ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی فارم ایسی ہی رہے گی؟

سرفراز احمد کی ذاتی خاصیت یہ ہے کہ ایسے شدید دباؤ کے بعد وہ بہتر فارم سے جواب دیا کرتے ہیں۔ چیمپئینز ٹرافی میں اگر وہ بھارت کے خلاف پہلا میچ نہ ہارتے تو شاید فائنل تک بھی نہ پہنچتے۔

کہیں نہ کہیں اس ٹیم کی قوت یہ رہی ہے کہ یہ ہار کو اپنی کمزوری نہیں سمجھتی بلکہ ایک بروقت ندا سمجھ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔

عمران خان کی قوت بھی ہمیشہ یہی رہی ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہےکہ اگر سرفراز احمد عمران خان بن گئے تو 2019 کی ماڈرن کرکٹ بھی وہی جواب دے گی جو 27 سال پہلے کی ون ڈے کرکٹ نے دیا تھا۔

کیونکہ یہ ورلڈ کپ بھی ویسا ہی ہے، فارمیٹ بھی وہی، اور پاکستان کے چانسز بھی ویسے ہی جیسے 1992 میں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp