جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیوں نگاہوں میں کھٹکنے لگے ہیں؟


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دور حاضر کا قاضی شریح ہے۔قاضی شریح کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے کندہ سے تھا، جس میں بڑے بڑے علما و فضلا گزرے ہیں، قاضی شریح کی زندگی کا بڑا حصہ دور جاہلیت میں گزرا لیکن جب اسلام کی روشنی خطہ عرب پر پھیلی تو آپ بھی اس کے نور سے مستفید ہوگئے۔ آپ نے سچے دل سے رب العزت اور ان کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلیم کیا اور ایمان لائے۔

حق کی روشنی دل میں کچھ اس طرح اتری کہ جلد ہی آپ کے علم و فضل، اخلاق اور صفات حمیدہ سے لوگ واقف ہوتے گئے۔ آپ پورے ساٹھ برس منصف قضاء پر فائز رہے۔

آپ کے انتخاب کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ امیرالمومنین کے عہدے پر تھے۔ آپ نے ایک گھوڑا خریدا اس کی نقد قیمت ادا کی اور اس پر سوار ہوکر چل دیے، ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ محسوس کیا کہ جانور میں ایسا نقص ہے کہ جس سے وہ چلنے سے معذور ہے، آپ واپس لوٹ کر آئے اور عربی سے جس سے گھوڑا خریدا تھا کہا ”لو پکڑو اپنا گھوڑا، اس میں تو نقص ہے۔ “ عربی بولا۔ ”امیر المومنین! میں یہ واپس نہیں لوں گا، میں نے تو آپ کے ہاتھ صحیح سالم فروخت کیا تھا۔ “ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ”یہ اس طرح حل نہیں ہو گا آؤ کسی کو منصف مقرر کرلیتے ہیں وہ جو فیصلہ کرے گا تسلیم کرلیں گے۔ “ عربی نے کہا ”پھر ہمارا فیصلہ شریح بن الحارث کندی کریں گے۔ “

حضرت عمرؓ نے فرمایا ”مجھے منظور ہے۔ “

اس کے بعد یہ تنازع حضرت شریح کے پاس پہنچا، انھوں نے دونوں کی بات غور سے سنی پھر فرمایا ”اے امیرالمومنین! جب آپ نے گھوڑا خرید لیا تھا اس وقت یہ صحیح حالت میں تھا؟ “

حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا ”جی ہاں! “

حضرت شریح بولے ”امیر المومنین! اگر یہ بات ہے تو یا تو آپ نے جو کچھ خرید لیا ہے اسے سنبھال کر رکھیں، ورنہ اسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت میں لیا تھا۔ “ حضرت عمرؓ نے تعجب سے حضرت شریح کی جانب دیکھا اور فرمایا: ”کیا آپ کے نزدیک یہی انصاف ہے؟ “

حضرت شریح بولے ”بے شک، حکم قطعی اور انصاف پر مبنی ہے۔ “

یہ سن کر حضرت عمرؓ کچھ دیر خاموش کھڑے رہے پھر بولے ”تم کوفہ جاؤ، میں تمہیں وہاں کا قاضی مقرر کرتاہوں۔ “

حضرت شریح نے یہ عہدہ قبول کرلیا اور کوفہ تشریف لے گئے۔ آپ کے عجیب و غریب انصاف کے ترازو پر تلے فیصلے بہت مشہور ہیں، خدا نے آپ کو عقل و فہم اور دانش مندی سے نوازا تھا جسے آپ نے ایمان کی روشنی اور صداقت کے پیمانے پر بڑی مستعدی سے ادا کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے بھی کچھ ایسے ہیں جو قاضی شریح کی طرح صداقت پر مبنی ہیں۔ قاضی شریح کے انصاف پر مبنی فیصلے سے خلیفہ ثانی اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں قاضی القضاء بنایا مگر مدینہ کی ریاست بنانے والے دعویٰ داروں کو جسٹس قاضی عیسی کے فیصلے پسند نہیں آئے انھوں نے اُلٹا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل ریفرنس دائر کر دیا۔

سپریم کورٹ سنیارٹی لسٹ میں پانچواں نمبر پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق پاکستان کے اُس صوبے سے ہے جسے ریاست ”ڈنڈے“ کے زور پر ہانکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے سترہ ججز میں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ واحد جج ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ طاقتوروں کی نظر میں کیوں کھٹکنے لگے اس کی وجہ جاننا چاہتے ہیں، نواز شریف کو اقتدار سے علحیدہ کرنے اور شاید خاقان عباسی کے دور حکومت میں فیض آباد میں مولوی خادم حسین رضوی کی سربراہی میں دھرنا ہوا۔ اس دھرنے نے لوگوں کی زندگیاں مفلوج کر کے رکھ دی۔ گھیراؤ جلاؤ ہوا۔ ریاست اور عامی کا کرڑوں کا نقصان ہوا۔ معصوم لوگوں کی جانیں گئی۔ عباسی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔

سپریم کورٹ نے دھرنے پر سوموٹو لیا اور حقائق جاننے کی کوشش کی۔ ریاست کی طرف سے اٹارنی جنرل پراسیکیوٹر کے طور پر معزز عدالت کے سامنے پیش ہوئے، دوران سماعت قاضی عیسی اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہیں کہ کیا دھرنا قانونی تھا، اٹارنی جنرل جواب دیتے ہیں کہ جی یہ غیر قانونی تھا، آئین ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے مگر احتجاج کے نام پر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا اور روزمرہ کے معاملات زندگی مفلوج کر کے رکھ دینا سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ ریاست کی حفاظت کرنے والے اپنا کام نہیں کر رہے کبھی ایک ادارے میں مداخلت ہوتی ہے اور کبھی دوسرے ادارے میں انھوں دفاع اور ریاست کے سربراہان کو دھرنے کے کرداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا۔

یہ وہی قاضی فائز عیسیٰ ہیں جنھوں نے میمو گیٹ سکینڈل میں ریاستی بیانیہ کے عین مطابق امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو ”غدار“ لکھا تھا۔ اُس وقت ریاست اس فیصلے پر شاد ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنیارٹی کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حلف اٹھانے کی تاریخ سترہ ستمبر 2023 ء بنتی ہے۔ ان کا عرصہ حیات بطور چیف جسٹس 13 ماہ بنتا ہے۔ بعض حلقوں کو گوارا نہیں کہ ایسا جج جو قانون کی سپرمیسی کی بات کرتا ہے وہ تیرہ ماہ عدلیہ کا قاضی القضاء رہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرح چند ہفتے قاضی القضاء رہتے تو پھر کڑوا گھونٹ پیا جا سکتا تھا۔

قاضی فائز عیسیٰ پر مبینہ الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ ریاست اُس وقت کہاں تھی جب وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اُس وقت ان کے خلاف ریفرنس کیوں دائر نہیں ہوا؟

فیض آباد دھرنہ کیس کے کرداروں کو قاضی فائز عیسیٰ بے نقاب نہ کرتے تو ان کے خلاف ریفرنس نہ آتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دور حاضر کا قاضی شریح ہے جس کے فیصلے بولے اور بڑے بڑوں کی چولیں ہلا دی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن غلطیوں کی نشاندہی جسٹس قاضی نے کی اُن سے سیکھا جاتا اور انھیں نہ دہرانے کا عہد کیا جاتا مگر ہوا سب کچھ اس کے اُلٹ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ عقل و فہم سے کام لیا جائے اور اپنی اپنی صفوں کو درست کیا جائے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui