فلپائن میں شجر کاری اور ہمارا ناقابل عمل منصوبہ


پاکستان کا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں ہمیشہ موثر اور قابل عمل منصوبہ سازی کا فقدان ہی رہا، طویل مدتی منصوبہ سازی کرنے کی بجائے وقتی حالات اور ضروریات کو دیکھ قلیل المدتی منصوبہ سازی کو ترجیح دی جاتی ہے ”5 سالہ دور حکومت میں وقتی اور جلدی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے صرف وہی منصوبہ جات ہی شروع کیے جاتے ہیں جن کے نتائج کا حصول بھی پانچ سالہ دور حکومت میں ہی ممکن ہو۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے دنیاوی، تعلیمی، معاشی اور علاقائی لحاظ سے پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ بھی طویل المدتی قانون اور منصوبہ سازی کا فقدان یا ناقابل عمل ہونا ہے۔

حکومت کا بلین ٹری سونامی منصوبہ تو ہم سب کو یاد ہی ہوگا، بھرپور تشہیری مہم شروع کی گئی ”اربوں روپے لگائے گئے، وزیراعظم، وزراء کے دوروں پر خطیر اخراجات کیے گئے، اب معلوم ہی نہیں کہ اربوں خرچ کرکے جو درخت اگائے گئے ان کی تعداد کتنی ہے، جو چند کروڑ درخت اگائے گئے ان کی موثر دیکھ بھال بھی کیاجارہی ہے یا وہی حال ہوا جو خیبرپختونخواہ کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا جہاں لگائے گئے درختوں میں سے ہزاروں درخت پانی نہ ملنے کے باعث اپنی موت آپ مر گئے، ماہرین ماحولیات تو اس بات پر بھی اپنا سر پیٹ رہے ہیں کہ حکومت کے اداروں نے درختوں کی جو اقسام اگانے کے لیے منتخب کی ہیں وہ تو پاکستان کے موسمی حالات سے مطابقت ہی نہیں رکھتیں یا ملک کے زیر زمین آبی ذخائر کے لیے انتہائی نقصان دہ اور ماحول دشمن ہیں،

اب یہ تو معلوم نہیں کہ اس انتہائی غیرشفاف اور تخیلات پر مبنی منصوبے پر لگنے والے غریب اور لاچار قوم کے اربوں روپوں اور بلین ٹری منصوبے کا مستقبل کیا ہوگا اور پاکستان کی آنے والی نسلیں بھی اس منصوبے سے مستفید ہو بھی پائیں گی یا نہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر اور مشکلات میں گھرے ملک فلپائن کی جانب سے اس سلسلے میں کی گئی منصوبہ و قانون سازی قابل تعریف ضرور ہے، ایشیائی ملک فلپائن کے بھی پاکستان کی طرح کم ترین گروتھ ریٹ رکھتا ہے، فلپائن میں فی فرد اوسط آمدنی بھی کم تر ہے، غربت کا شکار یہ ایشیائی ملک بھی اسوقت شدید مالی، معاشی اور ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے۔

فلپائن میں ایک ایسا منفرد قانون پاس کرلیاگیا کہ ایسے طلباء و طالبات جو گریجویٹ کہلانا چاہتے ہیں، انھیں گریجویشن مکمل کرنے تک ہر صورت کم ازکم 10 درخت لگانے ہوں گے اور درخت لگانے کے ثبوت بھی مہیا کرنے ہوں گے ”قانون کیمطابق طلباء وطالبات بیشک گریجویشن کے امتحانات کلیئر بھی کرلیں لیکن اس وقت تک پاس نہیں سمجھے جائیں گے جب تک 10 درخت اگانے کی شرط پوری نہیں کرلیتے اور نہ ہی اسوقت تک انھیں ڈگری فراہم کی جائے گی، بل کے محرک Gary Alejano کیمطابق ہر سال تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ طلباء وطالبات ایلیمنٹری، 50 لاکھ ہائی سکول اور 5 لاکھ طلباء طالبات ہر سال کالج سے گریجویشن کرتے ہیں، قانون پاس ہونے کے بعد امید ظاہر کی جارہی ہے کہ ہر سال گریجویشن کرنے والے فلپائن کے یہ کروڑوں طلباء وطالبات 175 ملین سالانہ نئے درخت لگائیں گے، فلپائن کے ماحولیاتی ماہرین کیمطابق اگر اس قابل عمل قانون کا نفاذ صحیح طریقے سے کرلیاگیا تو ملک کی ایک پوری نسل ملک حیران کن طور پر تقریباً 525 بلین پودے لگالے گی جو ملک میں روزبروز پھیلنے ماحولیاتی آلودگی، سیلابوں اور شدید ترین لینڈ سلائیڈنگ کا سدباب کریں گے۔

فلپائن میں پاس کیے گئے قانون کے مطابق یہ ضروری ہوگا کہ حکومت کی جانب سے علاقوں کے لیے درختوں کی جو اقسام منتخب کی گئی ہیں ان علاقوں میں وہی اقسام ہی اگائی جائیں گی، جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا بلکہ فضا میں کاربن کی مقدار کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاس کیے گئے قانون کیمطابق فلپائن کا سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہوں گے، واضح رہے کہ 70 فیصد رقبے پر جنگلات رکھنے والے ملک فلپائن کے جنگلات کا رقبہ درختوں کی غیرقانونی کٹاؤ کے باعث 20 ویں صدی میں 70 فیصد سے کم ہوکر صرف 20 فیصد تک رہ گیا ہے، جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہونے کے نتیجے میں فلپائن میں سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ میں اضافے کے باعث شدید ماحولیاتی اور مالی نقصان ہورہا ہے، امید ہوچلی ہے کہ مذکورہ قانون سازی سے فلپائن میں بہترین اور خوشگوار ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔

فلپائن میں ایک قابل عمل اور موثر قانون سازی کا موازنہ اگر ملک میں پاکستان میں شروع کیے گئے بلین ٹری سونامی منصوبے سے کیا جائے تو واضح نظر آئے گا کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ نقائص سے بھرپور اور قابل عمل منصوبہ بندی سے عاری ہے۔ نقائص سے بھرپور منصوبے میں جو اربوں روپے جھونک دیے گئے اس کی تلافی تو ناممکن ہے، برائے مہربانی اپنی محنت اور توانائیاں اب فلپائن جیسے قانون پر صرف کردیجیئے۔ ”قابل عمل فلپائن ماڈل کا مطالعہ کیجیئے، پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم مقصود ہوں تو وہ بھی کرلیجیے اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے بل پاس کرانے کے لیے تمام پارٹیوں کے ساتھ موثر مشاورت کرکے فلپائن ماڈل اپنا لیجیے، جب متفقہ لائحہ عمل اور شفاف نیت سے آگے بڑھیں گے تو پاکستان میں بھی بلین ٹری منصوبہ آپ کے وزراء اور محکمہ جنگلات کے افسر ان اور متعلقہ اداروں کی کرپشن کی نذر نہیں ہوگا اور منصوبے کے قابل عمل بننے کے قوی امکانات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).