سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے سیکھنے کی ضرورت


طویل بازار، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔

قدیم زمانہ، بازار کے دونوں طرف شائقین کا ہجوم، آس پاس والی چھتیں مرد وزن سے کھچاکھچ بھری، تماشا دیکھنے کا شوق، اور بازار کے بیچوں بیچ اونٹوں کا قافلہ!

اونٹوں کی قطار, بغیر کسی محمل اور پالکی کے ، ننگی پشت پر سوار بچے اور عورتیں!

سالار قافلہ! اپنے اونٹ پہ تن کے بیٹھی ہوئی ایک عورت!

مقامی رواج کے برعکس ننگے سر، دونوں ہاتھ بندھے ہوئے، منہ پہ متانت، آنکھوں میں اطمینان، پشت تنی ہوئی!

لوگوں کا شور کہ الاماں!

کسی کے ہاتھ میں پتھر ، کسی کے ہاتھ میں کنکر، ہر ہاتھ اٹھنے کو تیار!

شنید تھی کہ ریاست کے خلاف آواز اٹھی ہے، زبان کاٹ دی گئی ہے، سر قلم ہو چکا۔ اب اہل خانہ ہیں جنہیں بادشاہ وقت نے مشکیں کس کے، برہنہ سر، اونٹ کی ننگی پشت پہ سوار کرا کے ایک لمبے سفر کے بعد اپنے حضور بلوایا ہے۔

عوام کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ وہ کون لوگ تھے جو بغاوت کے جرم میں قتل کر دیئے گئے تھے اور کیا وہ باغی یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے بعد بچ جانے والے کمزوروں کا حاکم وقت کیا حال کیا کرتا ہے۔

اور آج سب جمع تھے تماشائی بنے اور باغیوں کا ٹھٹھا اڑانے کہ ریاست سے وفاداری کا یہی تقاضا ہوا کرتا ہے۔

لیکن ایک بات سب کو حیران کیے دیتی تھی۔ سب قیدی یا عورتیں تھیں یا بچے، سواے ایک جوان کے جو مضمحل اور بیمار نظر آتا تھا۔

سب عورتیں گو کہ وقت اور زمانے کے لحاظ سے بے حرمتی کے عالم میں تھیں کہ لباس ناکافی تھا پر سب کی سب اپنے اونٹ پہ تن کے بیٹھی تھیں۔ سر اونچے تھے چہرے پہ کچھ کھو جانے کا ملال تو تھا لیکن ایک مطمئن کیفیت بھی تھی۔

یہ ایک انوکھا جلوس تھا جس میں عورتوں کو وقت کے زبردستوں نے تماشا بنایا تھا۔

بازار اور تماشائیوں نے حسب حثیت تضحیک کی لیکن ان عورتوں کے چہرے کے تاثرات نہ بدلے۔ عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی اور اب وقت تھا حاکم کے حضور، کھڑے ہونے کا!

عالیشان دربار، مغرور اور رعونت زدہ حکمران، مودب درباری اور زنجیر وں میں جکڑی قیدی عورتیں!

دربار ہو، اختیار ہو، طاقت ہو اور جی حضوری کا مجمع ہو اور قیدی!

 پر ان قیدیوں کی سالار، نہ سر جھکائے، نہ آنکھ جھپکائے، گردن تان کے کھڑی ہو، انداز میں چیلنج ہو اور ہو عورت!

برداشت نہیں ہو سکتا بھئی!

” کون ہے یہ مغرور عورت ” بادشاہ کی آواز بلند ہوئی

“ان سے کیا پوچھتے ہو ؟ مجھ سے پوچھو میں کون ہوں ” عورت کی رعب آمیز آواز آئی

دربار چونک گیا، درباری سیدھے ہو بیٹھے۔ مکر و فریب اور ظلم کی دنیا، جہاں آنکھ کی جنبش پہ بڑے سے بڑے سورما کا سر اتر جاتا ہے وہاں ایک جنگ کے نتیجے میں سب مردوں کے قتل کیے جا نے کے بعد قیدی ہو کے آنے والی ادھیڑ عمر عورت اور یہ جرات رندانہ!

عورت بات کرتی ہے

“اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔ “

یہ ہے اسلام کی تاریخ کی پہلی جی دار، دلیر، بادشاہ وقت کے سامنے ننگے سر تن کے کھڑے ہونے والی عورت، حق اور سچ کی خاطر نہ جھکنے والی عورت، انتہائی بلند کردار عورت!

شہر اور گھر کا آرام چھوڑ کےمیدان جنگ میں اترنے والی، بھائی کی اذیت محسوس کرنے والی، اپنے دو بیٹوں کے سر کٹتے دیکھنے والی ، سب مردوں کے قتل ہو جانے کے بعد سب عورتوں اور بچوں کوخیموں کی آگ سے بچانے والی۔

 قیدی بھی بنی، تشدد بھی سہا، سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، حاکم دربار کے سامنے پہروں کھڑی رہی لیکن رہتی دنیا تک ایک سبق سکھا دیا کہ حق اور سچ کی قیمت چکانی پڑ تی ہے چاہے آپ کا تعلق خانواده رسول سے کیوں نہ ہو.

یہ تھیں سیدہ زینب، فاطمہ کی بیٹی اور ہمارے رسول کی نواسی، وہی رسول جن کے نام پہ ہماری آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں لیکن ان کے خانوادے کےافراد کے ذکر سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت سے سوالوں کے جواب نہیں۔

 آج معاشرے میں عورت کا جو مقام ہے اور جس کو اسلام پسند صحیح قرار دے کے مسلط رکھنا چاہتے ہیں، سیدہ زینب کا کردار اس سے میل نہیں کھاتا۔

آج چودہ سو سال بعد عورت کو تجویز کیا جاتا ہے وہ گھر کی زینت ہے، اس کی تخلیق کا مقصد فقط آبادی بڑھانا اور خاندان کو جوڑنا ہے ۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ گھر سے باہر کے معاملات میں اس کا کوئی حصہ نہیں، اس کو آواز بلند کرنے کا کوئی حق نہیں، اس کے کر دار کی طاقت پہ کسی کو یقین نہیں۔

ملک، قوم، آئیڈیالوجی، کردار سازی، کسی بھی ہاری ہوئی جنگ کے بعد اپنے موقف پہ قائم رہنا، اپنے حق کے لئے لڑنا، دوسروں کے حق کے حصول میں ان کے ساتھ چلنا، سچ کی صلیب اٹھانا چاہے ہاتھ کٹ جائیں، یہ آج کی عورت کو نہ سکھایا جاتا ہے، نہ سمجھایا اورنہ ہی بتایا جاتا ہے اور اگر کوئی نادان پھر بھی سر پہ کفن باندھ لے تو اس کے گوش گزار کیا جاتا ہے کہ کیوں کانٹوں بھرے رستوں کا انتخاب کیا ہے، یہ کس دلدل پہ چل رہی ہو، زبان کی قیمت لو اور ہونٹ سی لو۔

آج کی عورت کو سیدہ زینب کے کردار سے متعارف کروانا، جو کلمہ حق کے لئے نہ جھکے نہ بکے، کس قدر اہم ہے یہ وہی لوگ جانیں گے جو اس راہ کے مسافر ہیں۔ عورت کسی بھی معاشرے قوم اور آنے والی نسلوں کا کلیدی کردار ہوتی ہے، یہ صرف نظریاتی لوگ جانتے ہیں جو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی بھی ہوتے ہیں۔

جب ہر طرف قانون کی بےبسی ہو، جبر کے پنجے ہر طرف گڑے ہوں اور سچائی کا علم بلند کرنا ہو تو تاریخ کی مدد لے کے آہنی اعصاب والی عورتوں کو اپنا آئیڈیل ماننا اور ان کے نقش قدم پہ چلنا تربیت کا وہ حصہ ہے جسے آج کی ہر عورت کو سیکھنا ہے اور اپنی بیٹی کو سکھانا ہے۔

 اگر عورت معاشرے کی آنکھ میں آنکھ نہیں ڈال سکتی، اگر اپنی عزت روندنےوالوں کا منہ نہیں نوچ سکتی، انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی، سب کچھ لٹانے کے بعد بھی اونچی آواز میں نہیں بول سکتی تو پھر وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق میں صدیوں کے سفر کا سب حال رہ جاتا ہے اور تاریخ کا فیصلہ بھی سامنے آ جاتا ہے کہ ایک وقت کے ہارے ہوئے اصل میں ہیرو تھے اور وقتی جیت والے تاریخ کے تاریک کردار تھے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، وقت کا پہیہ بار بار وہی کردار سامنے لاتا ہے سو ضرورت صرف سبق سیکھنے کی ہے عورت کے لئے، کہ اسی میں عظمت ہے۔

اور اگر واقعہ کچھ یوں ہے کہ پر تو کٹ ہی چکے ہیں، لیکن اٹھنے اور اڑنے کی تمنا بھی نہیں تو خواتین، چلئے آپ کپڑوں کی نمائش میں جائیے، قیدی جسم کی تزئین کا اہتمام کیجیے اور ہم صبر کے گھونٹ پیتے ہیں کہ سقراط والا زہر کا پیالہ نہ میسر ہے اور نہ ہی ہمت!

(راولپنڈی کی اس مظلوم خاتون کے نام جس نے پہلے پولیس اہل کاروں پر درندگی کا الزام لگایا اور پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر عدالت سے اپنا بیان واپس لینے کی درخواست کی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).