زلیخا بی بی کے 45 برس اور سجدوں کی ایک رات


پچاس منٹ سے بھی کم وقت میں زلیخا بی بی کا آپرشن ختم ہوگیا تھا۔ وکرل کا ایک دھاگہ مالیت دو سو اسی روپے اسپائنل اینستھیسیاجس سے زلیخا بی بی کے جسم کو سُن کیا گیا تاکہ بغیر کسی تکلیف کے اپریشن ہوسکے۔ اسپائنل نیڈل قیمت بائیس روپے بے ہوشی کی دوا کی قیمت آٹھ روپے اگر بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر کی فیس، سرجن کی فیس، اور آپریشن تھیٹر میں کام کرنے والوں کی فیس بھی لگائی جاتی اور پانی بجلی کا خرچ بھی نکال لیا جاتا تو ملا جلا کر بائیس تیئس ہزار روپے سے زیادہ کا خرچ نہیں ہوا ہوگا۔

پینتالیس سال سے زلیخا بی بی اس غداب کے ساتھ زندگی گزاررہی تھی۔ 46 برس پہلے سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی تھی، ویسے ہی شادی جسے سوات میں ہوتی آئی ہے اور شاید ہوتی رہے۔ اس سے بھی پوچھا نہیں گیا لڑکے کی تصویر نہیں دکھائی گئی، اس کا عندیہ نہیں لیا گیا۔ اسے کسی طرح سے خبر ہوگئی تھی کہ اس کی شادی احمد سے ہو رہی ہے۔ احمد گاؤں کے بڑے زمیں دار کا بڑا بیٹا تھا اور وہ گاؤں کے معّزز گھرانے کی بڑی بیٹی۔ ان دونوں کی شادی تو ہونی ہی تھی۔ دونوں خاندانوں کے درمیان اتنی دوستی تھی کہ گاؤں کی برادری کا خیال تھا کہ ایک دن دونوں خاندانوں میں یہ رشتہ ضرور طے ہوگا۔

بڑی دھوم دھام سے گاؤں کی روایت کے مطابق اسے دلہن بناکر احمد کے گھر لایا گیا سب کچھ جیسے کسی خواب کی طرح ہوتا چلا گیا وہ سب کچھ جو اس نے سہیلیوں سے سنا وہ سب کچھ جس کا اس نے خواب دیکھا، وہ سب کچھ جس کا سپنا ہر کوئی بنتا ہے۔ اور دنیا میں ہوتا کیا ہے۔ سپنے جگائے جاتے ہیں پھر سپنوں کی تعبیر پر زندگی گزرجاتی ہے۔ گاؤں دیہات کی چھوٹی سی دنیا میں جب سے دنیا بنی ہے سب کچھ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

احمد اچھا آدمی تھا۔ اچھے دماغ کا سیدھا سادھامحبت کرنے والا، محنت کرنے والا۔ ایک سال میں اسے سب کچھ مل گیا ایک دوست جیسا شوہر جو اس کی دل و جان سے عزت کرتا۔ ایک پیار بھرا سسرال جہاں ساس سسر ماں باپ کی طرح محبت کرتے، دیور اور نند ایسے جو بھابھی کے لئے سب کچھ کرنے کو تیا ررہتے۔ اس کا سسرال اس کے میکے کی طرح ہی پیارا تھا۔

شادی کے چھ مہینے نہیں گزرے کہ اس کا پیر بھاری ہوگیا وہ حاملہ ہوگئی تھی۔ جیسے ہی اسے الٹی شروع ہوئی تھی احمد کی ماں نے گھر والوں کا منہ میٹھا کرایا۔ زلیخا بی بی حمل سے ہے، سارا گھر خوش تھا گھر کی پہلی اور بڑی بہو کو بچہ ہونے والا تھا۔ نو مہینے دیکھتے دیکھتے گزر گئے۔ وہ دبلی پتلی زلیخا بی بی سے بھاری بھرکم عورت بن گئی۔ اس کے چہرے پر بھی حمل کا غرور خوب سجا تھا اس کا اندازہ اسے اس وقت ہوا جب گھر کا ہر فرد اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا۔ نندیں کہتی تھیں کہ بھابھی کا چہرہ چمکتا رہتا ہے۔ ساس توجیسے قربان ہوئی جاتی تھی اور احمد کے خاموش چہرے پر ہروقت جیسے خوشی کے پھول کھلے کھلے سے رہتے تھے۔ زندگی خوبصورت تھی، بہت خوبصورت، حسین تھی بہت حسین۔

حمل کے دوران اس نے بھی سپنے دیکھے، کبھی لڑکی کا سپنا کبھی لڑکے کا خواب۔ بچوں سے بھرا ہوا گھر۔ ہنستا کھیلتا ہوا گھرانہ۔ خوش خوش احمد اور سارا خاندان۔ سالوں پہلے شہر سے سینکڑوں میل دور پہاڑوں کے اوپر نیچے گھومتے گھامتے راستوں کے درمیان دریاکے کنارے بنے ہوئے اس گاؤں میں اس کی زندگی میں سب کچھ تھا۔ پھربچے کی ولادت کا وقت بھی آگیا۔ درد آہستہ آہستہ آنے شروع ہوئے تھے۔ شروع میں تو اسے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی تھی اس نے سوچاتھا کہ اگر ایسے ہی درد کے ساتھ بچہ ہونا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ تو بہت معمولی درد ہیں کوئی خاص نہیں کہ چیخ پکار مچایا جائے، شور شرابہ اٹھایا جائے۔

لیکن اس کا خیال غلط نکلا تھا۔ آہستہ آہستہ اٹھنے والا درد تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا بڑھتا گیا اور اتنا بڑھ گیا کہ برداشت کے قابل نہیں رہا تھا ہر اٹھنے والے درد کے ساتھ اسے لگتا کہ اب جان چلی جائے گی۔ اب وہ ختم ہوجائے گی۔ اس کا جسم سر سے تلوے تک پسینے سے شرابور تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے بیٹھی ہوئی دائی کے چہرے کی گھبراہٹ سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ حمل کا یہ مرحلہ کچھ بگڑ گیا ہے نہ جانے کتنی دیر وہ درد سے تڑپتی رہی، سسکتی رہی، جان سے الجھتی رہی، کبھی ہوش میں کبھی بے ہوشی میں آنکھوں کے سامنے بجلی چمکتی رہی سائے آتے رہے جاتے رہے۔ پریشان چہرے دعا کرتے ہوئے دائی نے کہہ دیا کہ معاملہ اس کے ہاتھوں سے آگے ہے، بچہ پھنسا ہوا ہے۔ کولہوں کی ہڈیوں کے درمیان بچے کا سر بری طرح سے پھنس گیا ہے۔ کوئی طریقہ کارآمد اور کوئی دعا کارگر ثابت نہیں ہوئی۔

انسان ساری زندگی سفر کرتا ہے۔ زمین پر آسمانوں میں سمندروں میں دریاؤں ندی نالوں میں۔ میدانوں، وادیوں کھائیوں اور پہاڑوں پر اور اب آسمانوں کے اوپر خلا کی وسعتوں میں مگر شاید ان تمام سفروں سے کٹھن سفر اور ان تمام فاصلوں سے مشکل فاصلہ وہ چھ انچ کا سفر ہے جو بچہ دانی سے شروع ہوکر دنیا میں ختم ہوتا ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے، انسان جنے گئے ہیں نہ جانے کتنے لاکھوں کروڑوں انسان اس سفر کی بھینٹ چڑھے ہیں اور چڑھتے رہیں گے۔ زلیخا کا پہلا بچہ یہ چھ انچ کا سفر پورا نہیں کرسکا۔

اسے تو بعد میں پتہ چلا تھا کہ مرا ہوا ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے دائی نے کسی چیز میں بچے کے سر کو پھنسا کرنکالا تھا۔ اور احمد نے خاموشی سے اس مرے ہوئے بچے کو قبرستان میں دفن کردیا تھا۔ سارے خواب سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے گھر میں نہ جانے کتنے دنوں تک موت کی سی اداسی تھی، ایک سناٹا تھا جس میں وہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم کی طرح سر جھکائے ہوئے تھی۔ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہوگا۔ ایک زندہ بچے کے بدلے میں اک مرا ہوا بے جان جسم گوشت کا لوتھڑا پیدا ہوگا۔

نہ شادیانے بجیں گے، نہ مٹھائیاں بٹیں گی۔ دل گرفتہ احمد خاموشی سے اس جسم کو مٹی کے ڈھیر میں دبادے گا۔ زندگی اے زندگی، تیرے کتنے روپ ہیں؟ کیسے کیسے رنگ؟ کیا کیا انداز خوب خوب ڈھنگ؟ ابھی وہ معاملات کو سمجھنے بھی نہیں پائی تھی کہ یکا یک اس کے جسم سے پیشاب خود بخود رسنے لگا۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کے کپڑے پیشاب سے بھر جاتے بدبو بھی ایسی کہ خود اسے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی، مسئلہ ہر ایک کی سمجھ سے باہر تھا، نہ دائی کی سمجھ میں آیا نہ احمد کی سمجھ میں نہ گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس کوئی دعا تھی اور نہ حکیم صاحب کے پاس دوا۔ بڑی تیزی سے وہ گھر اور گھر والوں سے دور ہوگئی تھی۔ پیشاب کے بدبو بھرے جسم سے کسے دلچسپی ہوسکتی ہے۔

اس کے گاؤں میں اور دوسرے گاؤں میں بھی ایسی عورتیں تھیں جن کے جسم سے ہر وقت پیشاب بہتا رہتا تھا اور اسے پتہ تھا کہ ان کی زندگی کیسی ہے وہ شوہروں کے گھر اور شوہروں کے بستر سے دور بہت دور پھینک دی گئی تھیں۔ اپنے اپنے ماں باپ کے گھروں میں ایک خاموش، بے چارگی کی زندگی گزار رہی تھیں نہ کوئی انہیں چاہنے والا تھا اور نہ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ تھا روتے روتے اس کی آنکھیں بھی مستقل طور پر یہ سوج گئی تھیں۔ سب سے زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ وہ نہ اب نماز پڑھ سکتی ناہی قرآن کو ہاتھ لگا سکتی اور نہ اس قابل تھی کہ روزہ رکھے۔ وہ مستقل طورپر نا پاک رہتی تھی۔ اس کے تمام دکھوں میں سب سے بڑا دکھ یہی تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2