پروفیسر عبدالسلام پر ایک الزام


ڈاکٹر عبدالسلام ایوب دور سے صدر پاکستان کے سائنسی مشیرتھے۔ ایک امریکی ساینسی جریدے نے ڈاکٹر صاحب کے پاکستان میں موجود ایٹمی ادارے پنزٹیک کو ’تاج محل‘ قرار دیا۔ کیونکہ وہ ایک غریب ملک میں ایٹمی توانائی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1960 میں ستر سے زئد پاکستانی طلباء کو اعلیٰ نیوکلئر تعلیم کے لئے مختلف بین الاقوامی اداروں میں بھجوایا۔ اور چند سال ہی میں پاکستان کا پہلا نیوکلئیر ریئکٹرتعمیر کروایا جو اعلیٰ ترین ڈیزائن اور سائنسی عزائم کی وجہ سے پاکستان کا ایم آئی ٹی کہلایا جانے لگا۔ ایوب دور کے بعدبھٹو نے انہیں اپنا مشیر رکھا۔ انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس اٹلی میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی کاوشوں سے تعمیر کروایا تھا۔

بھٹو نے 1972 کی ملتان میٹنگ میں جوہری بم بنانے کا اعلان کیا۔ یہاں اس نے اصرار کر کے ڈاکٹر عبدالسلام کو بلوایا۔ اس وقت کے پاکستان ایٹمی کمیشن کے سربراہ عشرت عثمانی نے جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کی۔ یاد رہے کہ یہ ایٹمی کمیشن بھی ڈاکٹر صاحب نے شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر عشرت کو بھٹو نے برطرف کیا اور منیر احمد کو مقرر کر دیا۔

منیر احمد ڈاکٹر سلام کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اصولی طور پر نیوکلئیر ہتھیاروں کے خلاف تھے لیکن ان کی پاکستان سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی کا اندازہ اس بات سے ہو جاتا ہے کہ انہوں نے بھارت کی جارحیت کے جواب میں پاکستان کا ایٹم بنانا ناگزیر سمجھا اور پورے اخلاص سے اس کام میں حصہ ڈالا۔

اس دور میں ڈاکٹر صاحب اپنے قائم ادارے میں اکثر وقت گزارتے۔ یہاں ان کے ساتھ ڈاکٹر ریاض الدین اور مسعود احمد بھی تھے۔ یہ تینوں سائنسدان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تھیوریٹیکل گروپ کے کرتا دھرتا تھے۔

پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ایک شعبہ کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدیر تھے جنہوں نے سنٹری فیوج ٹیکنالوجی کے حصول میں کلیدی کردار ادا کیا۔ واشنگٹن پوسٹ میں جیک اینڈرسن نامی ایک صحافی نے 1980 میں ایک کالم لکھا جس میں اس نے سی آئی اے کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر قدیر نے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر سلام کی مدد سے یہ ٹکنالوجی ہالینڈ سے چرائی۔

انگلستان کے ایک معروف سائنسدان نارمن ڈومبی نے ایک مقالہ لکھا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب پرایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کا الزام لگایا گیا ہے۔ نارمن ڈومبی نے آئی سی ٹی پی میں ڈاکٹر سلام سے ملاقات کے دوران واشنگٹن پوسٹ کے کالم کی بابت پوچھا تو انہوں نے اس دعوے تردید کی اور ایک وضاحتی خط بھی لکھا جس میں انہیں نے اس سارے قضیے سے لاتعلقی ظاہر کی۔

لیکن نارمن ڈومبی کے مطابق ڈاکٹر سلام کا سارا کردار ایٹمی ہتھیار کے ڈیزائن اور اس سے متعلقہ تھیویٹکل سائینس سے متعلق تھا۔ یورینیم کی افزودگی اور دیگر صنعتی معاملات سے وہ لاعلم ہوں گے اس لئے ان کی وضاحت قابل قبول تو ہے مگر انہیں جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے بری الذمہ قرار نہیں دیتی۔

ڈومبی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سلام نے بغداد میں صدام حسین کے جوہری سائنسدانوں کو ایٹم بم بنانے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق اسرائیل کے پاس اگر بم ہے تو عراق کے پاس بھی اس کا جواز موجود ہے۔ یہ حوالہ البتہ مشکوک لگتا ہے۔ کیا معلوم سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہو۔ اس کا راوی خضر حمزہ نامی عراقی سائنسدان ہے جو صدام کے اوائل دور میں سی آئی اے کے لئے مخبری کرتا تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر سلام نے 1966 میں چین کا دورہ بھی کیا۔ یہ وہ سال ہے جب چین نے ہائڈرجن بم کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ ڈومبی اس کو بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے جوڑتے ہیں۔

منیر احمد نے واہ کینٹ میں پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن کے تحت ایک پراجیکٹ شروع کیا۔ یہ 1974 کی بات ہے۔ اس پراجکٹ کی پہلی میٹنگ میں ریاض الدین، حفیظ قریشی اور منیر احمد کے علاوہ ڈاکٹر سلام بھی موجود تھے۔ واہ کینٹ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ وہاں آرڈیننس فیکٹری میں موجود آلات اور آتش گیر مادے سے کام لینا مقصود تھا۔ پس ایک تھیوریٹیکل گروپ کے ساتھ ساتھ ایک ایکسپلوسوز گروپ قائم ہوا۔

سن 1974 میں ڈاکٹر سلام نے دوسری آئینی ترمیم کی وجہ سے احتجاجا استعفیٰ دے دیا۔ لیکن اس سے قبل ہی ڈاکٹر سلام نے مین ہیٹن پراجکٹ کی طرز پر ایک مکمل لایحہ عمل منیر احمد، ریاض الدین وغیرہ کو دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ مین ہیٹن پراجیکٹ امریکہ کے جوہری پروگرام کا نام ہے جس کے نتیجے میں پہلے ایٹم بم ایجاد کیے گئے۔

1974 کے بعد بھی ڈاکٹر سلام نے پاکستان کے جوہری سائنسدانوں سے مسلسل رابطہ رکھا۔ بھارتی ڈیفنس جریدے نے یہ بھی لکھا کہ 1978 میں ڈاکٹر سلام نے چین سے جوہری تعاون کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1979 میں ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام ملا جس سے ان کا شہرہ چہار دانگ عالم میں ہوا۔

دنیا کی نظریں پاکستان کے جوہری پروگرام پر مرکوز تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1980 میں جوہری بم تیار تھا۔ لیکن فزکس کے عالمی حلقوں میں چہ مگویاں چلتی رہیں کہ ڈاکٹر سلام نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں آئی سی ٹی پی کے وسائل استعمال کیے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس اعتراض کا جواب ایک میٹنگ میں کچھ یوں دیا کہ ان کا ادارہ پسماندہ ممالک میں سائنس کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے اور وہ ان مہمان سائنسدانوں کے محرکات یا ان کے اپنے ممالک میں شعبہ جات کی چھان بین نہیں کرتے۔ صرف سائینس سکھاتے ہیں۔ البتہ ادارے کی پالیسی یہی ہے کہ ایٹمی سائینس کو پر امن مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر ڈومبی نے اپنے مقالے کا اختتام پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگرچہ کہ آئی سی ٹی پی اور ڈاکٹر سلام کے مقاصد اعلیٰ تھے، لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کہی جا سکتی کہ یہ ادارہ پاکستان کے ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہوا۔ موصوف لکھتے ہیں کہ کوشش کی جائے کہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔

ڈاکٹر نامن ڈوبمی، انگکستان کی یونیورسٹی آف سسکس میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے 2011 میں ایک مضمون میں ڈاکٹر عبدالسلام کے پاکستان کے جوہری بم کی تیاری میں کردار پر بھرپور تحقیق شائع کی۔ یہاں یہ بھی مد نظر رہے کہ ڈاکٹرڈمبی، پروفیسر سلام کے نقاد رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ڈاکٹر سلام کی الیکٹرو ویک تھیوری پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مقالے میں ڈومبی صاحب نے ڈاکٹر سلام کا نام حذف کر دیا۔

وجہ یہ تھی کہ ڈومبی کو سٹیون وائنبرگ کو نوبل کا مکمل حقدار قرار دینے کا شوق تھا جبکہ پروفیسر سلام نے واینبرگ سے پہلے ہی اس تھیوری کو ایک اور سائینسدان وارڈ کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ ۔ بعد میں ایک موقعہ پر ڈاکٹر سلام نے ایک سرزنش پر مبنی خط بھی ڈومبی کو لکھا کیونکہ انہوں نے کسی مقالے میں ڈاکٹرسلام کا نام منہا کر کے اس تھیوری کا حوالہ پیش کیا تھا۔ لگتا ہے کہ یہ بات ڈومبی کو گوارا نہ ہوئی اور انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی سائنیسی کاوشوں پر منفی تبصرے کیے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈمبی کی ایٹم بم کے متعلق رائے زنی کا مقصد ڈاکٹر عبدالسلام کو ایک منفی رنگ میں پیش کرنا ہے۔ لیکن جو لوگ ڈاکٹر صاحب کے نظریات، پاکستان سے محبت اور ان کے ذاتی کردار سے واقف ہیں، وہ یہی گواہی دیتے ہیں کہ واقعی وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی تھے، اوریہ بھی کہ پاکستان کی موجودہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت دراصل انہیں کی مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر ڈمبی کو ایک عالمی حیثیت کے معزز سائینسدان میں اگر یہ خامی نظر آتی ہے تو یہ بھی معلوم رہے کہ یہ سائنسدان پاکستان کی عزت کی خاطر اپنی عزت کو داؤ پر لگائے بیٹھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).