یورپ میں حلال گوشت کے کباب کیسے متعارف ہوئے؟


کباب ہو، کسی جانور کے گوشت کا بنا ہو یا سبزی کا، تو عام سی چیز ہے، چائنا سے مراکش تک دستیاب ہے، حلال گوشت کا ہو تو اس کی باطنی خوبی میں اضافہ ہوا مگر فی نفسہہ تو کباب ہی رہا، اس مضمون لکھنے کا سبب کباب خود نہیں بلکہ اس کا حلال ہونا اور ایک یورپی ملک کے ماحول میں اس نام سے متعارف ہونا ہے۔ آج کل تو اشیائے خوردو نوش پر عموما۔ حلال۔ کا منا سا لفظ چھپا ہوتا ہے چار دہائیاں قبل وہاں یہ جنس معدوم تھی۔ اس اجمال کی تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیے۔

حلال گوشت کے کباب کا اچھوتا خیال جن صاحب کے دماغ میں آیا ان کا ہلکا ساتعارف بھی کرادیا جائے تو مناسب رہے گا۔ یہ ہیں جناب لطیف صاحب جو اپنی باقاعدہ ملازمت سے فارغ خطی لے کر ایک مقامی ملازم کی حیثیت سے اسی دفتر میں آگئے اور ہمارے ساتھی بن گئے، یوں کہنا بھی مناسب ہے کہ ہم اس دفتر میں پہنچے توان کے ساتھی کہلائے۔ اپنی صورت اور لب و لہجے سے قطعاً  لطیف نہیں لگتے تھے اور اپنے لہجے کی سختی کے خود بھی قائل تھے، لیکن رویے اور معاملات میں بالکل الٹ تھے یعنی ہمدردانسان، سراپا تعاون کرنے والے بلکہ احسان کرنے والے اور احسان کر کے بھلا دینے والے۔

حلال گوشت کے کباب بنانے اور مارکیٹ کرنے کا خیال ان کے دماغ میں کب سے کلبلا رہا تھا یہ معلوم نہیں۔ ہم جیسے نو وارد سے کیا ذکر ہوتا۔ ایک دن لنچ کے وقفے میں ہم دونوں آزاد صاحب کے ہمراہ اپنے اپنے سینڈوچ کھا رہے تھے، کہ لطیف صاحب منمنائے ”اگر سالانہ میلے میں حلال گوشت کے کبابوں کا ایک سٹال لگا یا جائے تو۔۔۔“ آزاد صاحب دفتر کے محاسب یعنی اکاونٹس افسر تھے، وہ چونکے اور بولے، رقم کہاں سے لاؤ گے؟ کیا پنشن کے پیسے جیب میں اچھل رہے ہیں، اور وہ بھی ہوں تو قطعاً ناکافی ہیں؟ ”نہیں، اتنی رقم اور بھی ڈال دوں گا۔ “ یہ کہہ کے لطیف صاحب آہستہ سے اٹھے اور وہاں سے کھسک گئے کہ دل کی بات کہہ تو دی ہے اب طشت ازبام ہو جائے گی تو کئی سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔

کباب، حلال گوشت کے، موضوع بحث بنے رہے اور اس خیال کے موجد اپنی دھن میں لگے رہے۔ انہوں نے ایک غیر مسلم ماحول میں سے ایک ایسا قصائی تلاش کر لیا جو مطلوبہ مقدار میں حلال بیف بشکل  قیمہ صاف مصفی مع ضروری مسالہ جات اور پیاز کے کبابوں کا آمیزہ بنا کر دینے کو تیار ہو گیا۔ میلے سے دو ماہ قبل ہی ہر روز دس بارہ کلو کباب قیمہ لایا جاتا اور اس کو کبابوں میں ڈھال کرفریز کردیا جاتا غالبا دو ڈھائی ہفتوں میں کبابوں کی مطلوبہ مقدار اس مقصد کے لئے خریدے گئے ڈیپ فریزر میں محفوظ کر دی گئی۔ میلے کی تاریخ میں ایک ہفتہ رہ گیا تو لطیف صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایک سٹال اس مقصد کے لئے بک کرا لیا ہے تا کہ دوست احباب، واقفان کار اور دیگر متعلقین آگاہ رہیں اور میلے کی سیر میں سٹال کا وزٹ کرنا نہ بھولیں۔

حلال کباب جیسی جنس نایاب کا ذکر ہو تو میلے کے مقام کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے۔ یہ وسطی یورپ کا ایک مشہور شہر ہے جس کے بیچوں بیچ ایک بہت ہی خوبصورت جھیل ہے، دونوں کناروں پر میلوں طویل فٹ پاتھ، سبز گھاس کے میدان اور ہزاروں چھوٹے بڑے درخت لگے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کے سستانے کے لئے کہیں کہیں بنچ بنے ہیں اور بچوں کے کھیلنے کو جگہ جگہ گراونڈ۔ شہر کے مرکزی حصے کے ساتھ جھیل کے فٹ پاتھ کا قریبا نصف کلو میٹر طویل ٹکڑا اس میلے کے لئے مختص کیا جاتا ہے جو اگست کے تیسرے ہفتے کے ویک اینڈ پر لگتا ہے بشمول جمعہ، اتوار کی شب دس بجے میلے کا اختتام ایک شاندار آتش بازی پر ہوتا ہے جو سال نو کی آتش بازی کے برابر رنگ و نور کا سماں ہوتا ہے۔ میلے پر دکا ن دار اپنے سٹال لگاتے ہیں۔ اشیا ئے خوردو نوش میں سینڈ وچ، برگر، چکن بیف، مشروبات سرد و گرم ہمہ قسم، بچوں کے دل پسند کھلونے اور کھیل، سوس مصنوعات اور تحا ئف، یہ تفصیل جتنی طویل ہو، میلوں کے شائقین کے لئے کم ہے، لیکن اس میں حلال گوشت کے کباب کا کوئی ذکر نہیں اور اسی نادرالوجود چیز کو اس کا مقام دلانے کی کوشش کررہے تھے اپنے لطیف صاحب!

آخر وہ جمعہ بھی آ پہنچا جس کا انتظار کیا جارہا تھا۔ ورکنگ ڈے کی وجہ سے ہم سب تھے تو دفتر میں لیکن بے تاب کہ، کب شام ہو اور کب شمع جلے، اور ہم کباب تماشا دیکھیں۔ ان دنوں موبائل فون ابھی کہیں اپنے موجدوں کے دام ہائے خیال میں پھڑ پھڑاتے ہوں گے، اس لئے میلے کی رننگ کمنٹری سننا ممکن نہ تھا۔ دفتر کے بند ہونے میں چند منٹ ہی باقی ہوں گے کہ آزاد صاحب کو ایک فون کال موصول ہوئی جسے سن کے ان کا منہ لٹک گیا اور بعد میں ہم سب کا بھی!

لطیف صاحب نے اپنا سٹال خوب اچھے طریقے سے لگایا اور سجایا بھی۔ کباب، حلال گوشت کے، ایک بڑے بینر پہ نہ صرف لکھا بلکہ زائرین اور شائقین کی توجہ مبذول کرنے کے لئے ایک زندہ مکبر الصوت کا بندوبست بھی کیا جو بزبان عربی، فرنچ اور انگریزی، کھڑابتاتا اور بلاتا تھا کیونکہ لطیف صاحب کے خیال میں حلال گوشت کے طلبگار اور ضرورت مند انہی زبانوں کے بولنے والے ہو سکتے تھے۔ لطیف صاحب نے پہلے دن کی روداد بیداد مختصر لفظوں میں صرف آزاد صاحب کے گوش گزار کی اور چپ ہو گئے۔

ہم سب کو اس مکبر الصوت عربی دوست نے بتایا کہ ”میرے بلانے کے جواب میں عربی زائرین پہلے تو ٹھٹک کے دیکھتے تھے، لحم حلال کے الفاظ سن کر زیر لب دہراتے، مسکراتے اور کہتے، “ مش ممکن، مش ممکن ”یعنی حلال گوشت! نا ممکن، نا ممکن! “ اس طرح پہلے پورے دن میں محض چند گاہک جو آئے وہ غیر عرب تھے جنہوں نے ایک نئے نام اور پراڈکٹ کو محض آزمائش کی خاطر شرف قبولیت بخشا۔ باقی دو دنوں کا احوال زیادہ مختلف نہ تھا!

نفع و نقصان کے پہلو سے زیادہ، لطیف صاحب کی دل جوئی کرتے وقت، ہم لوگ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے تھے کہ، مال نایاب تھا اور گاہک بھی اکثر بے خبر، لیکن، حلال گوشت کے بہ آواز بلند اعلان کے جواب میں عربی ٹورسٹ یہ کیوں کہتے تھے، ناممکن، نا ممکن! کیا ان کو یوروپ کے عین دل میں حلال گوشت کی دستیابی میں شک تھا یا لطیف صاحب کی پیشکش ہی ناممکن دکھائی دیتی تھی؟

آخر ہم بھی توحلال خوروں کے اس پرہجوم ملک میں اپنے قصائیوں سے بیمار، مردہ بلکہ حرام جانوروں کا گوشت ان کے طلب کردہ نرخوں پر آرام سے خرید لاتے اور مزے سے نوش جان کرتے رہتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).